Maktaba Wahhabi

388 - 531
غلط مبحث کی بدترین مثال: گیلانی کو حق و باطل میں خلط ملط کرنے کا ہنر خوب آتا ہے پہلے انہوں نے یہ ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے تورات کو براہ راست پڑھنے کی غرض سے سریانی اور عبرانی زبانیں سیکھیں ، پھر کتاب کے متن اور حاشیہ پر یہ خامہ فرسائی فرمائی کہ وہ ان دونوں کتابوں کی باری باری تلاوت بھی کرنے لگے اور یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں اور آپ کے اذن سے، اس کے بعد ان کے سریانی اور عبرانی زبانیں سیکھنے پر تعجب کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: عبد اللہ بن عمرو کے ان دونوں زبانوں کو سیکھنے میں حیرت و تعجب کیوں ؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کی زبان نہیں سیکھی تھی؟‘‘ عام قاری اس خلط مبحث سے دھوکا کھا جاتا ہے اور اس طرح کتاب کا مصنف اپنے گمراہ کن مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے، اس کتاب ’’تدوین حدیث‘‘ کے عام قارئین کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے، کیونکہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہودیوں کی زبان سیکھنے کا واقعہ ثابت ہے، لیکن مصنف نے اس واقعہ کا سبب نہ بیان کر کے جو مقصد حاصل کرنا چاہا تھا کہ عبد اللہ بن عمرو دونوں کتابوں کی باذن نبوی پابندی سے تلاوت کیا کرتے تھے، اس طرح قرآن کی طرح تورات کا پڑھنا بھی ایک ’’مشروع‘‘ عمل تھا، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ عبد اللہ بن عمرو کی ساری کہانی محض افسانہ ہے اور زید بن ثابت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس غرض کے لیے یہودیوں کی زبان سیکھنے کا حکم دیا تھا وہ احادیث میں بیان کر دی گئی ہے اور اس کا مقصد تورات کی تلاوت ہر گز نہیں تھا، بلکہ ان ریشہ دوانیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کرتے رہنا تھا جو تحریری شکل میں یہودی، اسلام، رسول اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرتے تھے، چنانچہ امام بخاری باب ترجمۃ الحکام کے تحت جو پہلی حدیث لائے ہیں اس کے الفاظ ہیں : ((قال خارجۃ بن زید بن ثابت، عن زید بن ثابت: أن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم أمرہ أن یتعلم کتاب الیھود، حتی کتبت للنبی صلي اللّٰه عليه وسلم کتبہ وأقرأتہ کتبھم اذا کتبوا الیہ)) [1] ’’خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ یہودیوں کا خط… زبان … سیکھ لیں ، یہاں تک کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ کے مراسلے لکھنے لگا اور جب وہ آپ کو کچھ لکھتے تو میں اسے پڑھ کر آپ کو سناتا۔‘‘ امام بخاری یہ حدیث اسی طرح معلق شکل میں لائے ہیں اور معلق کا شمار ضعیف روایتوں میں ہوتا ہے، لیکن امام بخاری جو معلق روایات یقینی صیغے اور تعبیر : ’’قال‘‘ کہہ کر لائے ہیں ، وہ ان کی شرط صحت پر نہ ہو نے کے باوجود صحیح ہے۔[2]
Flag Counter