Maktaba Wahhabi

203 - 531
تمام روایات ایک نظر میں : میں نے میت کے اس کے گھر والوں کے رونے سے مبتلائے عذاب ہونے کی حدیث اور اس کی عدم صحت کے بارے میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے مؤقف کی مکمل تفصیلات حوالوں کے ساتھ نقل کر دی ہیں ان پر پہلی نظر ڈالنے سے جو حقیقت عیاں ہوتی ہے وہ یہ کہ مرفوع حدیث کی روایت میں حضرت عمر، ابن عمر، ابو موسی اشعری، اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم کے الفاظ ایک ہیں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نسبت یقین کے درجے پر پہنچ جاتی ہے اور اس میں کسی بھول چوک یا غلطی کا ادنیٰ سے احتمال بھی باقی نہیں رہ جاتا، ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ یا تو ان سارے جلیل القدر صحابیوں نے بیک وقت اور بیک موقعہ کذب بیانی پر اتفاق کر لیا تھا یا یہ چاروں کے چاروں سہو و نسیان اور سماع میں غلطی سے دو چار ہو گئے اگر ایسا ممکن ہے اور فعلاً ایسا ہوا ہے تو پھر دنیا کی کوئی بھی خبر صحیح اور قابل اعتماد نہیں ہے اور اگر یہ چاروں جلیل القدر صحابی ایک جملہ پر مشتمل حدیث: ((ان المیت لیعذب ببکاء أھلہ علیہ)) سن کر اسے یاد نہ رکھ سکے تو پھر ان طویل ترین حدیثوں پر کس طرح اعتماد کیا جا سکتا ہے جن کی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے روایت کی ہے…! واقعات کے بیان سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث کو مختلف مواقع اور مناسبتوں پر بیان کرتے رہے ہیں اور ہر وقت اور موقع پر حدیث کے الفاظ ایک تھے، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ام المؤمنین کو یہ حدیث کبھی تو حضرت عمر کی نسبت سے پہنچی اور کبھی حضرت عبد اللہ بن عمر کی نسبت سے، اور انہوں نے کبھی تو اس حدیث کو اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ((ولا تزر وازرۃ وزر أخری)) سے متعارض قرار دے کر رد کر دیا، کبھی یہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اللہ مؤمن کو اس پر اس کے اہل خانہ کے رونے سے عذاب دیتا ہے‘‘ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ’’اللہ درحقیقت کافر کو اس کے اہل خانہ کے اس پر رونے سے مزید عذاب دیتا ہے اور دلیل میں مذکورہ آیت پیش کی، کبھی یہ فرمایا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت کی قبر کے پاس سے گزرے جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے، اس پر آپ نے فرمایا: لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے‘‘ اور کبھی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا حوالہ دے کر اس کا انکار کیا کہ اس کو اس کی معصیت اور گناہ پر عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے اہل خانہ اس پر رو رہے ہیں ۔‘‘ ’’میت کے اس کے گھر والوں کے رونے سے مبتلائے عذاب ہونے کی حدیث کی عدم صحت پر ام المومنین کے مذکورہ بالا استدلالات میں سے جہاں تک اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ﴾ سے ان کے استدلال کا تعلق ہے تو اولاً تو حدیث اور آیت میں کوئی تعارض نہیں ہے، جیسا کہ میں آیت کی قرآن کی روشنی میں تفسیر بیان کرتے وقت ان شاء اللہ واضح کروں گا، ثانیاً اگر ام المؤمنین کی نظر میں حدیث ((ان المیت لَیُعَذَِبُ ببکاء أھلہ علیہ)) اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے متعارض ہے تو ان کی روایت کردہ حدیث: ((ان اللّٰہ لَیزید الکافِرَ عذابا ببکاء أھلہ
Flag Counter