Maktaba Wahhabi

202 - 531
مکذَّبَیْنِ، ولکن السمعَ یخطیٔ)) ’’تم لوگ مجھ سے حدیث بیان کر رہے ہو، درانحالیکہ تم دونوں نہ خود جھوٹے ہو اور نہ مستحق تکذیب، لیکن سماعت غلطی کر سکتی ہے۔‘‘ ام المؤمنین نے یہ بات حضرت عمر کے انتقال اور ابن عمر کی غیر موجودگی میں مخاطب کے صیغے میں اس لیے فرمائی تاکہ وہ اپنے اس یقین و اذعان کا اظہار کر سکیں کہ اس کے راوی یہ دونوں جلیل القدر صحابی سچے اور اپنی روایت حدیث میں قابل تصدیق ہیں ، مگر سمع غلطی کر سکتی ہے جس کا صدق و کذب سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہی واقعہ عروہ بن زبیر سے بھی مروی ہے کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ذکر کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا: ((وھل ابن عمر رحمہ اللّٰہ، انما قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم : انہ لیعذب بخطیئتہ وذنبہ، وان أھلہ لیبکون علیہ الان)) ’’ابن عمر رحمہ اللہ سے چوک ہو گئی، دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ، اس کو اس کی معصیت اور گناہ پر عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے اہل خانہ اس وقت اس پر رو رہے ہیں ۔‘‘[1] عمرۃ بنت عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک یہودی عورت کی قبر کے پاس سے گزر ہوا جس کے اہل خانہ اس پر رو رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: ((انھم لیبکون علیھا وانھا لَتعذب فی قبرھا)) ’’لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔‘‘[2] امام بخاری نے یہ حدیث اسی طرح روایت کی ہے، لیکن امام مسلم اس کو انہی عمرۃ کی روایت سے زیادہ تفصیل سے لائے ہیں ، جس میں وہ کہتی ہیں کہ ’’عائشہ سے یہ بیان کیا گیا کہ ابن عمر کہتے ہیں کہ ’’میت کو زندہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے‘‘ اس پر میں نے انہیں فرماتے ہوئے سنا کہ ’’اللہ ابو عبدا لرحمن کی مغفرت فرمائے، انہوں نے کذب بیانی نہیں کی ہے‘‘ لیکن وہ بھول گئے یا ان سے غلطی ہوگئی، دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا…[3] یہ روایت امام مالک نے بھی انہی الفاظ میں مؤطا میں نقل کی ہے۔ [4]
Flag Counter