Maktaba Wahhabi

132 - 531
تحصیل ما یوحی إلیہ۔)) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوپر کی جانے والی وحی کی تحصیل و اخذ میں سختی اور مشقت کا سامنا کرتے تھے۔ ابن عباس نے نزول وحی کی جس شدت کو بیان کیا ہے یہ ان کا قول ہے، مگر اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جو آپ نے حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کے سوال پر خود اپنی زبان مبارک سے فرمایا ہے، حارث نے پوچھا تھا: اے اللہ کے رسول! آپ کے پاس وحی کیسے آتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا: بسااوقات وحی میرے پاس گھنٹی کی آواز کے مانند آتی ہے جو میرے اوپر بڑی سخت ہوتی ہے۔‘‘[1] نزول وحی کی یہ پُرمشقت کیفیت متعدد اور صحابہ کرام نے بھی بیان کی ہے جن میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں ۔ اوپر اس کی بعض تفصیلات گزر چکی ہیں ۔ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نزول وحی کی یہ شدت، بلکہ ثقل اور گراں باری مادی بھی ہوتی تھی جس کو متعدد صحابہ کرام نے، جن میں ام المومنین بھی شامل ہیں اپنے مشاہدات کی روشنی میں بیان کیا ہے، یہاں تک کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اونٹنی پر سوار ہوتے اور اسی وقت وحی کا نزول شروع ہوجاتا تو اونٹنی اپنا سینہ زمین پر ٹیک دیتی۔ نزول وحی کا یہ ثقل اور گراں باری صرف نزول قرآن کے ساتھ خاص تھی، دوسری وحیوں کے نزول کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت نہیں ہوتی تھی۔ نزول وحی کے اس ثقل کا اشارہ خود قرآن پاک سے بھی ملتا ہے؛ اللہ تعالیٰ نے اس کو ’’قول ثقیل‘‘ سے تعبیر کیا ہے جو اپنے معانی اور مضامین کے اعتبار سے بھی بھاری اور گراں قدر ہے اور جس کے نزول کا تحمل بھی بے حد دشوار تھا۔ یہی نہیں ، بلکہ قرآن تو یہاں تک صراحت کرتا ہے کہ اگر یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ پاش پاش ہوجاتا، ارشاد الٰہی ہے: ﴿لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَرَاَیْتَہُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ﴾ (الحشر:۲۱) ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم اسے دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا اور پھٹا پڑتا ہے۔‘‘ یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ پہاڑ پر نزولِ قرآن سے مراد نزول تکلیفی ہے بایں معنی کہ اگر پہاڑ کو عقل و احساس سے سرفراز کردیا جاتا اور قرآن جیسے گراں قدر کلام سے اس کو خطاب کیا جاتا ہے تو وہ اپنی صلابت اور مضبوطی کے باوجود اس کو سہارا نہ پاتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ یاد رہے کہ وحی کے نزول کی کیفیت سراسر غیبی ہے اور اس کی شدت، ثقل اور گراں باری محض ایک ایسا مظہر ہے جس سے اس کی حقیقت کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا۔
Flag Counter