Maktaba Wahhabi

137 - 531
درحقیقت جس جگہ مچھلی نے ٹوکری سے نکل کر سمندر میں راہ بنالی تھی وہی تو اس سفر کا بنیادی نقطہ تھا جہاں سے موسیٰ علیہ السلام کو تنہا سمندری سفر کرکے خضر علیہ السلام سے ملنا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان ساری باتوں کو اپنے اعجازی کلام کے صرف ایک مختصر فقرے ’’ذلک ما کنا نبغ‘‘ یہی تو ہمارا مطلوب تھا‘‘ میں سمیٹ دیا۔ اور آپ نے جس بات کو تمسخر اور استہزاء کے انداز میں مفسرین کی فضول سی بات قرار دیا ہے اور اس سے اللہ کی پناہ مانگی ہے وہ صحیحین کی زیر بحث حدیث میں متعدد سندوں سے بیان ہوئی ہے میرے خیال میں آپ جیسے مفسر قرآن کو جو بے بنیاد اور غیر مستند قدیم صحیفوں سے استدلال کا اس قدر دلدادہ رہا ہو، یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک بے غبار اور صحیح ترین حدیث کو مفسرین کی فضول سی بات کہنے کی جرأت کرے۔‘‘ بلاشبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے وقت میں تمام شرعی علوم کے مرجع تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس حیثیت پر ان کی گرفت نہیں کی تھی، کیونکہ یہ تو اسی کی عطا کردہ تھی، بلکہ اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم کہنے پر کی تھی اور جہاں کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک جلیل القدر رسول کے مقام سے یہ بات فروتر تھی وہیں کوئی بھی رسول سارے علوم کا جامع نہیں ہوتا یہ تو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس وجہ سے حدیث کے مطابق ان کے ’’اللّٰه اعلم‘‘ نہ کہنے پر ان پر عتاب کیا گیا تھا اور حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بذریعہ وحی جو یہ خبر دی تھی کہ ((أن عبدا من عبادی بمجمع البحرین ہو أعلم منک۔)) مجمع البحرین میں میرے بندوں میں سے ایک بندہ ایسا ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔[1] تو یہ بھی علی الاطلاق نہیں تھا، بلکہ اس سے مراد اُس علم میں ان کی موسیٰ پر برتری تھی جس کا تعلق بعض تکوینی امور سے ہے جس کی خضر علیہ السلام نے خود صراحت کردی ہے۔ [2] اور یہ علم موسیٰ علیہ السلام کو حاصل نہیں تھا، اسی وجہ سے جب موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا تھا: ((ھل أتبعک علی أن تعلمن مما علمت رشدا۔)) کیا میں آپ کے ساتھ اس غرض کے لیے رہ سکتا ہوں کہ جو علم ہدایت آپ کو عطا کیا گیا ہے اس میں سے کچھ مجھے سکھادیجیے۔‘‘ اس پر انھوں نے جواب دیا: ((إنک لن تستطیع معی صبرا وکیف تصبر علی مالم تحط بہ خبرا۔)) ’’آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو اس پر آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں ۔‘‘ یاد رہے کہ اس واقعہ سے صوفیاء کا اولیاء اللہ کے لیے علم باطن یا علم لدنی پر استدلال باطل ہے اور یہ دعویٰ بھی باطل ہے کہ خضر علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے افضل تھے، اسی طرح خضر علیہ السلام کے یہ اعمال غیر شرعی اور ناقابل تکرار تھے۔ انبیاء کی زبانوں سے بعض اوقات ایسی باتیں نکل جاتی تھیں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ
Flag Counter