Maktaba Wahhabi

148 - 531
ان حقائق کو سامنے رکھئے اور اس حدیث پر اصلاحی صاحب کی تنقیدی نظر ملاحظہ فرمائیے، فرماتے ہیں : ’’اس حدیث کے الفاظ مجمل ہیں جس سے حدیث کے اہم حصے نظر انداز ہوگئے ہیں اور یہ مضمون پیدا ہوگیا ہے کہ محض توحید کا اقرار فلاح کے لیے کافی ہے۔‘‘ مذکورہ حدیث پر آپ کے اس اعتراض کے جواب میں بحیثیت ایک ’’مفسر قرآن‘‘ کے آپ سے یہ سوال ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد مبارک کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس میں اللہ کو صرف رب کہہ دینے کو جنت میں داخل ہونے کے لیے کافی قرار دے دیا گیا ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ، ﴾ (حم السجدہ:۳۰) ’’درحقیقت جن لوگوں نے کہا، اللہ ہمارا رب ہے، پھر جمے رہے ان پر فرشتے نازل ہوں گے کہ نہ ڈرو اور نہ غم زدہ ہو اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا تھا۔‘‘ یہی مضمون سورۂ احقاف میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَــــــلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ، ﴾ (الاحقاف:۱۳) ’’درحقیقت جن لوگوں نے کہا، اللہ ہمارا رب ہے اور جمے رہے، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ کیا آپ اللہ تعالیٰ پر بھی یہ اعتراض کریں گے کہ نعوذ باللہ اس نے توحید کے اقرار کو نجات کے لیے کافی قرار دے دیا اور اس کے لوازم اور مقتضیات نظر انداز کردیے، یاد رہے کہ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے اقرار کو نجات کے لیے کافی قرار دے دیا گیا ہے اور اس توحید الوہیت کا ان میں کوئی ذکر نہیں ہے جس کے لیے انبیاء کی بعثت ہوئی تھی اور پورے قرآن میں کہیں ایک جگہ بھی یہ نہیں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ لوگوں کو یہ دعوت دیں کہ اللہ تمہارا خالق، تمہارا مالک، تمہارا رازق اور تمہارے تمام امور کا مدبر و منتظم ہے، کیونکہ کفار و مشرکین اللہ تعالیٰ کی ان صفات کے معترف تھے، اس کے باوجود اس کے ساتھ عبادت میں غیر اللہ کو بھی شریک مانتے تھے اور عملاً غیر اللہ کی عبادت بھی کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت یعنی اپنی صفت خلق، رزق رسانی، ملک، تصرف اور تدبیر کائنات وغیرہ کو اپنی توحید الوہیت و عبودیت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، بایں معنی کہ جو خالق ہے، رازق ہے، مالک ہے، صاحب تصرف ہے، تمام کائنات کے انتظام، انصرام اور تدبیر میں منفرد ہے وہی اس بات کا سزاوار ہے کہ اس کو معبود بنایا جائے اور اس کی عبادت کی جائے۔ یہاں جملہ معترضہ کے طور پر میں قارئین کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ اصلاحی صاحب کے قلم نے ان
Flag Counter