Maktaba Wahhabi

157 - 531
قرار دے کر احادیث کے بارے میں اپنی بیمار ذہنیت کا اظہار کر دیا جس کو ان کے شاگرد اور ان کے مکتبۂ فکر سے وابستہ حضرات خدمت حدیث اور تدبر حدیث سے تعبیر کرتے ہیں ۔ میں یہاں اصلاحی صاحب کی خدمت حدیث کی ترویج کرنے والوں سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک ہی واقعہ اور موضوع سے متعلق روایتوں میں تفصیل و اختصار اور اطناب و ایجاز راوی حضرات کے ذوق و پسند کی کرشمہ سازی ہے تو پھر وہ قرآن پاک میں مذکور واقعات میں تفصیل و اختصار کو کس کے ذوق کی کرشمہ سازی قرار دیں گے۔ مثال کے طور پر صرف حضرت موسی علیہ السلام کے قصے کو لے لیجئے اور دیکھئے کہ وہ کن کن طریقوں اور شکلوں میں بیان ہوا ہے، اس قصے کی ترتیب، انداز بیان اور تفصیلات ہر ہر چیز پر غور کر کے دیکھئے کہ کیا وہ ہر جگہ ایک ہی اسلوب، ایک ہی ترتیب اور ایک ہی تفصیل سے بیان ہوا ہے یا ان میں اختلاف واقع ہوا ہے؟ پورے قرآن کے بجائے صرف سورۂ اعراف (۱۰۳۔۱۶۸) سورۂ طہ (۹۔۹۸) سورۂ شعراء (۱۰۔۶۶) اور سورۂ قصص (۳۔۴۳) پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر بتائیے کہ کیا ہر جگہ کا اسلوب، ترتیب واقعات، طرز تعبیر اور طوالت بیان و اختصار بیان دوسری جگہ سے مختلف نہیں ہے، جبکہ یہ کلام الٰہی ہے اور اللہ کی صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ ﴿لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَی﴾ (طہٰ: ۵۲) اللہ تعالیٰ سے اسے سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کو نازل کرنے والے فرشتے کی صفت ’’الروح الامین‘‘ بیان ہوئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کے حوالہ سے فرمایا گیا ہے: ﴿سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنسٰی ﴾ (الاعلیٰ: ۶) یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ جن نفوس قدسیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر قرآن پاک ہمیں دیا ہے انہی نفوس قدسیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر حدیث بھی ہمیں دی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ قرآن کے نقل میں تو امین رہے لیکن حدیث کے نقل میں امانت سے کنارہ کش ہو گئے اور حدیث میں اپنے ذوق و پسند کو بھی ’’دخیل‘‘ بنانے لگے۔ ایک ہی گروہ سچا اور جھوٹا، امین اور خائن اور بیدار مغز اور مغفل کس طرح ہو سکتا ہے؟ دراصل روایت حدیث داستان سرائی نہیں ہے، تعلیم و درس ہے اور در س و تعلیم میں تفصیل و اختصار اور اطناب و ایجاز ایک طبعی امر ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع صرف ایک صحابی سے مروی نہیں ہے، بلکہ متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے، مثلاً حضرت ابو بکرۃ، عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر اسے مختلف اوقات میں روایت کیا ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا، انہوں نے حالات کی روشنی میں اس خطبہ کے مختلف گوشوں کو بیان کیا ہے اور محدثین اپنی کتابوں میں مختلف ابواب کے تحت اس خطبہ کے مناسب حصے لائے ہیں اور خطبہ کا جو حصہ باب سے مناسبت رکھتا تھا اس کا ذکر کیا ہے، بقیہ حصوں کو حذف کر دیا ہے، فقہ اور عقائد کی کتابوں میں ایسا قرآن کی آیتوں کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے، امام بخاری نے اپنی صحیح میں مختلف ابواب کے تحت اس خطبہ کے ٹکڑے نقل کر کے اس سے مسائل کا
Flag Counter