Maktaba Wahhabi

179 - 531
یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات مصر میں فرمائی تھی اور اس وقت مصر کی زمین پر ان کے اور حضرت سارہ کے علاوہ کوئی مومن نہیں تھا، لہٰذا معلوم ہوا کہ’’علی وجہ الارض ‘‘ سے مرادصرف سرزمین مصر ہے ویسے قرآن پاک میں زمین کے لیے’’الارض ‘‘ ہی استعمال ہوا ہے چاہے اس سے مراد پوری دنیا ہو یا کوئی خاص خطہ، سیاق وسباق سے حقیقی مفہوم مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن حدیث میں ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کو کذب بمعنی توریہ اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ بھائی یا بہن کا اطلاق لغت میں نسبی رشتہ اخوت پر ہی ہوتا ہے، دینی یا ایمانی اخوت پر نہیں ہوتا، لیکن چونکہ اس لفظ میں دینی اخوت مراد لینے کی گنجائش ہے اس لیے یہ صریح جھوٹ نہیں ، بلکہ توریہ یا معراض تھا اور اسی کا اعتبار کر کے حدیث میں اس پر کذب یا جھوٹ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ معلوم رہے کہ حدیث میں ابراہیم علیہ السلام کے اپنی بیوی سارہ کو’’بہن ‘‘ کہنے کا واقعہ ترتیب زمنی کے اعتبار سے پہلا ہے، لیکن حدیث کی ترتیب میں قرآن پاک میں مذکور دونوں جھوٹ’’انی سقیم ‘‘ اور’’بل فعلہ کبیر ھم ھذا ‘‘ کو اللہ کی ذات سے متعلق قرار دیا گیا ہے اور صحیح بخاری میں تیسرے جھوٹ کے بارے میں کچھ نہیں آیا ہے، البتہ صحیح مسلم میں مروی حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ((بل فعلہ کبیرھم ھذا)) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وواحدۃ فی شأن سارہ ‘‘ اور ایک سارہ کے معاملے میں ہے، اس کے بعد حضرت ابراہیم وسارہ کے مصر جانے اور وہاں کے ظالم بادشاہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا ذکر ہے۔ اسی طرح مسلم کی روایت میں جو دوسرا اضافہ ہے وہ یہ کہ: ابراہیم علیہ السلام نے سارہ سے فرمایا: کہ اس ظالم کو اگر یہ معلوم ہوگیا کہ تم میری بیوی ہو تو زبردستی کر کے مجھ سے تمہیں حاصل کرنے کی کوشش کرے گا…اس کے بعد ہے کہ جب ابراہیم وسارہ علیہما السلام مصر کی سر زمین میں داخل ہوئے تو ظالم بادشاہ کے اہل خانہ میں سے کسی نے حضرت سارہ کو دیکھ لیا اور جا کر اس کو خبردی کہ تمہاری سر زمین میں ایک ایسی عورت آئی ہے جو صرف تمہاری ہونے کے قابل ہے۔‘‘ حدیث کے اس فقرے پر بعض اہل قلم نے یہ اعتراض کیا ہے کہ حضرت ابراہیم اور سارہ نے جس وقت مصر کا سفر کیا تھااس وقت بائیبل کے مطابق ابراہیم علیہ السلام ۷۵برس کے اور سارہ ۶۵ برس کی تھیں ، پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ’’اس عمر میں حضرت ابراہیم کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کردے گا۔‘‘ موصوف نے یہ بات تمسخر اور استہزا کے انداز میں فرمائی ہے اور قتل کرنے کی بات اپنی طرف سے اپنے اعتراض میں وزن پیدا کرنے کے لیے لکھ دی، جہاں تک ابراہیم علیہ السلام کے ۷۵ برس کے اور حضرت سارہ کے۶۵ برس ہونے کی بات ہے تو عرض ہے کہ جوانی اور بڑھاپا طبعی عمر کے اعتبار سے ہوتا ہے، مثلاً اگر ابراہیم علیہ السلام کی طبعی عمر بائیبل کے مطابق۲۵۰ برس تھی تو ۷۵برس کی عمر میں وہ جوان تھے، اسی طرح اگر حضرت سارہ کی عمر بائیبل کے مطابق ۱۲۰برس کی تھی
Flag Counter