Maktaba Wahhabi

208 - 531
دراصل ڈاکٹر برنی عذاب قبر کے منکر ہیں وہ حدیث کے بھی منکر ہیں ، لیکن سعودی عرب میں مقیم ہونے کی وجہ سے اور سعودی عرب کے حق نمک کے پیش نظر ائمہ حدیث کی ثنا خوانی بھی کرتے ہیں اور ان کی ثقاہت کو مطعون بھی کرتے ہیں اور حدیث کو شرعی حجت بھی مانتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ترین حدیثوں کی نسبت کو مشکوک بنانے کی کوشش مذموم بھی کرتے رہتے ہیں ۔ رہے شیخ غزالی تو وہ جید عالم دین، ماہر خطیب اور صاحب طرز ادیب تھے اسلام کے دفاع میں انہوں نے گراں قدر کتابیں بھی لکھی ہیں اور دین میں بدعتوں کو رواج دینے والوں کے خلاف نہایت مؤثر اور اسلامی تعلیمات کے ترجمان اعمال بھی انجام دئیے ہیں ، مگر بایں ہمہ انہوں نے حدیث کے بارے میں جو معاندانہ طرز عمل اختیار کیا ہے وہ ناقابل فہم ہے۔ وہ محدثین کے حق میں جو جارحانہ تحریریں چھوڑ گئے ہیں ان میں وہ معتزلہ سے بازی لے گئے ہیں ۔ حدیث دشمنی کے جوش میں ایک طرف تو وہ عمر بن خطاب، عبد اللہ بن عمر، ابو موسی اشعری اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم کی روایت کردہ حدیث کو دریا برد کر دینے اور احادیث کے مجموعوں سے اسے خارج کر دینے کے داعی نظر آتے ہیں اور اس صحیح حدیث کے انکار میں حضرت عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے موقف کے پرجوش حامی نظر آتے ہیں اور حدیث کے مقابلے میں ان کی رائے کا پوری قوت سے دفاع کرتے ہیں ، دوسری طرف انہی ام المؤمنین کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ وہ حدیث انہیں نظر نہیں آتی جو بظاہر قرآن کے خلاف ہونے میں ان کی رد کردہ حدیث کے مانند ہے اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ام المؤمنین کی حمایت اور قرآن کے دفاع کا دعویٰ محض ایک ڈھونگ ہے ورنہ نہ ان کو ام المؤمنین عزیز ہیں اور نہ قرآن کا دفاع ان کو مطلوب ہے، بلکہ اس کے پردے میں انکار حدیث کے اپنے جذبے کی تسکین ہے۔ میں سطور بالا میں پوری وضاحت سے یہ دکھا چکا ہوں کہ اہل خانہ کے رونے سے میت کے مبتلائے عذاب ہونے کی حدیث قرآن: کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘ کے خلاف نہیں ہے اور اگر ہے تو ام المؤمنین کی روایت کردہ حدیث: درحقیقت اللہ کافر کے عذاب میں اس پر اس کے گھر والوں کے رونے سے اضافہ کر دیتا ہے۔‘‘ بھی مذکورہ قرآنی آیت کے خلاف ہے، کیونکہ دونوں میں عذاب کا سبب گھر والوں کا رونا ہی بتایا گیا ہے اور یہ رونا میت کا عمل نہیں ہے، پھر دونوں میں تفریق کیوں ؟ کیوں ایک ساتھ دونوں کو رد نہیں کر دیا گیا، یا دونوں کو قبول نہیں کر لیا گیا؟ جیسا کہ محدثین نے کیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ شیخ غزالی نے دوسری حدیث کا ذکر پہلی حدیث کے رد کے ضمن میں ام المؤمنین کا موقف بیان کرتے ہوئے کیا ہے۔ عقل و منطق اور انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اعلان کر دیتے کہ یہ حدیث بھی قرآن کے خلاف ہے اور ’’نص‘‘ کے مقابلے میں ام المؤمنین کی رائے کی حمایت نہ کرتے، مگر عداوت حدیث نے ان کی بصارت و بصیرت
Flag Counter