Maktaba Wahhabi

225 - 531
چیز ہے، اور یہ تمام لوگوں کی مشترکہ صفت ہے۔ ۳۔ میں نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ فرشتۂ موت کی پہلی آمد پر موسی علیہ السلام نے اس کو انسان ہی سمجھا تھا، اگر وہ اس کو اللہ کا فرشتہ سمجھتے تو اس کو طمانچہ نہ مارتے، لیکن جب وہ ان کے پاس سے واپس جا کر بصحت و سلامت دوبارہ حاضر ہو گیا تو ان کو اس کے فرشتہ ہونے کا یقین ہو گیا اور وہ مرنے پر تیار ہو گئے، جیسا کہ حدیث کا بعد کا فقرہ اس پر بصراحت دلالت کرتا ہے۔ ۴۔ شیخ غزالی اور دوسرے منکرین حدیث کو یہ بات معلوم ہے کہ فرشتے نوارنی مخلوق ہونے کی وجہ سے ’’غیر مرئی‘‘ ہوتے ہیں ، لیکن وہ انسانی شکل اختیار کرنے پر قدرت رکھتے ہیں جس کی مثالیں قرآن و حدیث دونوں میں موجود ہیں ، اور وہ جو انسانی جسم اختیار کرتے ہیں وہ اثر پذیر ہوتا ہے، بایں معنی کہ اگر اس کو مارا جائے تو اس پر ظاہری اثر پڑے گا اس وضاحت کی روشنی میں حدیث کے اس فقرے کو سمجھا جا سکتا ہے جس میں آیا ہے کہ موسی علیہ السلام نے موت کے فرشتے کو جو طمانچہ مارا تھا اس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی‘‘ یہ آنکھ اس کے انسانی جسم پر تھی اور اس پر ضرب لگنے سے اس کی روحانی حیثیت پر یا روحانی وجود پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا، چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں فرشتے کا یہ قول نقل ہوا ہے: ((وقد فقأ عینی)) ۔ انہوں نے میری آنکھ پھوڑ دی۔ ((فرد اللّٰہ اِلیہ عینہ)) اللہ نے اس کی آنکھ اس کو لوٹا دی۔ شیخ غزالی ایک وسیع المطالعہ عالم دین تھے ان کو یہ بات معلوم تھی کہ موسی علیہ السلام کے طمانچہ سے فرشتے کی مادی یا انسانی آنکھ متاثر ہوئی تھی اس کا روحانی یا نورانی وجود نہیں ، کیونکہ وہ اثر پذیر نہیں تھا، یہ اس لیے کہ فرشتے جو انسانی یا غیر انسانی ھیئت اور شکل اختیار کرتے ہیں وہ لباس کے مانند ہوتی ہے اور اثر پذیر ہوتی ہے، رہی ان کی ملکیت اور نورانیت تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی، اس وضاحت کی روشنی میں فرشتے کے انسانی جسم پر جو آنکھ تھی موسیٰ علیہ السلام کے ضرب سے صرف وہ متاثر ہوئی تھی، نہ کہ اس کا ملکیوجود، یہ بات حدیث کے الفاظ سے عیاں ہے، ایسی صورت میں غزالی جیسے عالم دین کے مقام و مرتبے سے یہ بات فروتر تھی کہ وہ حدیث رسول کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ سوال کریں : کیا فرشتے بھی اندھے پن اور کور چشمی میں مبتلا ہوتے ہیں ؟‘‘ انبیاء علیہم السلام کے بارے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اپنے ایمانی اور روحانی مقام و مرتبے کی انفرادیت کے ساتھ وہ غیر معمولی جسمانی طاقت کے بھی مالک ہوتے تھے اور موسیٰ علیہ السلام اپنی اس غیر معمولی جسمانی طاقت کے ساتھ جلالی مزاج اور طبیعت بھی رکھتے تھے اور خلاف طبع یاخلاف حق کوئی بات دیکھ کر سخت غیظ وغضب میں مبتلا ہوجاتے تھے، اس حالت میں اگر کسی پر ہا تھ اٹھاتے تو وہ اتنا بھرپور ہوتا کہ کام تمام ہو جاتا۔ (سورۂ قصص: ۱۵) کوہ طور سے واپسی پر قوم کو گؤ پرستی میں مبتلا پا کر تورات کی تختیاں پھینکیں اور بھائی ہارون علیہ السلام کے سر اور داڑھی کو پکڑ کر ان کو اس قوت سے
Flag Counter