Maktaba Wahhabi

252 - 531
کی حدیث نے کھول دیا ہے: صحیح بخاری کی حدیث میں اس کے ایک ’’پر میں بیماری‘‘ کی جو بات فرمائی گئی ہے اس سے مراد ایسے جراثیم اور مائکروب ہیں جو بیماریاں پیدا کرتے ہیں اور ’’دوسرے پر میں شفاء‘‘ فرما کر ان بیماریوں کے ایسے علاج کی طرف اشارہ ہے جو طب جدید میں Antbiotic کے نام سے معروف ہے، چنانچہ مسند امام احمد نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی جو حدیث روایت کی ہے اس میں اس کے ایک پر کو زہر اور دوسرے کو شفاء جو فرمایا گیا ہے تو اس سے مراد یہی تو ہے کہ مکھی کے ایک پر کے بالائی سطح پر بکٹیریا ہوتا ہے جس کو وہ مشروب یا کھانے میں ڈبو دیتی ہے اور حدیث کے مطابق دوسرے پر کے بالائی سطح پر جو شفا یا تریاق یعنی Antbiotic مادہ پایا جاتا ہے اس کو ڈبو دینے سے پہلے پر کی سمیت زائل ہو جاتی ہے۔ ابو سعید خدری کی حدیث میں ہے کہ زہر آمیز پر کو آگے رکھتی ہے اور جس پر میں شفاء یا تریاق ہے اس کو پیچھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف اس پر کو مشروب یا کھانے میں ڈبوتی ہے جس پر مائکروب یا جراثیم ہوتے ہیں اور جس پر میں علاج ہوتا ہے اس کو اٹھائے رکھتی ہے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں بعض علماء کے حوالہ سے لکھا ہے کہ مکھی جس پر کے سہارے اپنے آپ کو بچاتی ہے یعنی جس کے بل گرتی ہے وہ بایاں پر ہے۔‘‘[1] اس سے یہ معلوم ہوا کہ تریاق داہنے پر میں ہوتا ہے۔ میں نے اوپر جو کچھ عرض کیا ہے اس کی تائید جدید طبی تحقیقات سے ہوتی ہے اس سلسلے میں علم الجراثیم کے ماہرین Bacteriologist کا کہنا ہے کہ مشروبات وغیرہ کو مکھیوں کی سمیت سے پاک کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُن میں ان کو ڈبو کر نکال لیا جائے۔‘‘ (www.kaheel.com ) یہاں یہ واضح کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور اس کی تعلیمات لوگوں کے لیے سراپا رحمت ہیں ۔ اس دین کے اوّلین مخاطب کھلی فضا اور صحراؤں میں زندگی گزاتے تھے اور ان کی بنیادی غذا اونٹ کا دودھ تھا جو ہر وقت مکھیوں کی زد پر رہتا تھا۔ اس پس منظر میں اگر ان کو یہ حکم دیا جاتا کہ مکھی گرتے ہی برتن کا سارا دودھ زمین پر انڈیل دو تو ان تنگ دستوں کے لیے زندگی بڑی پر مشقت ہو جاتی، اس طرح ان کو جہاں یہ بتا دیا گیا کہ مکھیاں جہاں اپنے پروں میں بیماریوں کے اسباب رکھتی ہیں وہیں دوسری پروں میں اللہ تعالیٰ نے ان بیماریوں کا علاج رکھ دیا ہے۔ لہٰذا سارا دودھ یا پانی بہانے کے بجائے اس میں گری ہوئی مکھی کو ڈبو کر نکال پھینکو اور دودھ یا پانی پی لو۔ لیکن اگر کسی شخص کی طبیعت مکھی گرے ہوئے دودھ یا دوسرے مشروب کو پینے پر آمادہ نہ ہو تو اس کے لیے یہ لازمی نہیں ہے۔ اعجاز نبوی کی حاصل اس حدیث کے بارے میں اپنی گفتگو ختم کرنے سے قبل یہ واضح کر دوں کہ قدیم محدثین کے زمانے میں علم الجراثیم اور علم الادویہ کے میدان میں وہ کام نہیں ہوا تھا جو ادھر پچاس ساٹھ برسوں میں ہوا ہے اس لیے وہ اس طرح کی حدیثوں کے اعجازی پہلو کو بیان کرنے سے معذور تھے۔
Flag Counter