Maktaba Wahhabi

260 - 531
توحید سے خالی ہیں ، اور جن صوفیاء نے اپنی کتابوں میں توحید الوھیت یا توحید عبادت کا ذکر کیا بھی ہے تو اسے انہوں نے عوام کی توحید قرار دیا ہے۔ جبکہ قرآن کے مطابق یہی تمام انبیاء اور رسولوں کی توحید تھی اور اس توحید کی طرف دعوت دینے کے لیے ان کی بعثت ہوئی تھی: (۳)… اشاعرہ کے نزدیک اللہ کے حق میں جہت کا تعین محال ہے اس وجہ سے وہ عرش پر اس کے بلند ہونے کا انکار کرتے ہیں اور عرش پر اس کے استوا کی تاویل غلبہ اور قدرت سے کرتے ہیں جو کتاب میں تحریف ہے۔ اگر یہ حقیقی معنی میں نہیں مجازی معنی میں ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں اس کا ذکر متعدد بار ایک ہی اسلوب میں نہ کیا ہوتا۔ (الاعراف: ۵۴، یونس: ۳، الرعد:۲، طہ: ۵، الفرقان: ۵۹، السجدۃ: ۴، الحدید: ۴) کیا یہ بات قرین عقل ہے کہ اللہ تعالیٰ بیان تو یہ کرنا چاہے کہ وہ عرش پر غالب، قابض، اور مستولی ہے اور تعبیر ایسی اختیار کرے اور وہ بھی سات بار جو اس عربی مبین میں جس میں قرآن نازل ہوا ہے یہ مفہوم ادا کرنے کے لیے وضع نہیں کی گئی ہے اور ایک بار بھی عرش پر اپنے غلبہ، قدرت اور استیلا کا ذکر نہ کرے؟! پھر اگر استوی علی العرش‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کا عرش پر غلبہ، قدرت اور قبض کرنا ہے اور اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ عرش پر بلند اور رونق افروز ہے تو سورہ نحل کی مندرجہ ذیل آیت کا مفہوم کیا ہوگا؟ ﴿یَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ (النحل: ۵۰) ’’یہ اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ بجا لاتے ہیں ۔‘‘ یاد رہے کہ آیت مبارکہ آسمان وزمین کی تمام اشیا کے فرشتوں سمیت اللہ کا سجدہ کرنے اور عناد وتکبر میں اس کی عبادت سے منہ نہ موڑنے کے بیان کے بعد آئی ہے، اس سلسلہ بیان میں اگر اللہ تعالیٰ کی فوقیت اور علو کو بیان کرنا مقصود نہ ہوتا، تو پھر ’’یخافون ربہم‘‘ کی تعبیر کافی تھی اور ’’من فوقہم‘‘ کے بغیر جملہ مکمل تھا۔ دراصل علو اور فوقیت اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات کی طرح اس کی صفت ہے جس سے وہ اپنی بے مثل ذات کے شایان شان موصوف ہے اور دوسری صفات کی طرح صرف وہی اس کی حقیقت اور کیفیت کا علم رکھتا ہے اور اس کی کسی صفت میں نہ کوئی اس کا شریک ہے اور نہ شبیہ اور نہ اس کی صفت علو سے معتزلہ اور متکلمین کی خود ساختہ اور من گھڑت جہتوں اور سمتوں میں اس کا محدود ہونا ہی لازم آتا ہے۔ (۳)… اشاعرہ کا یہ عقیدہ ہے کہ تعارض کی صورت میں عقل کو نقل پر ترجیح دی جائے گی۔ کیونکہ عقل اصل ہے اور نقل یعنی کتاب وسنت اس کے تابع ہیں ، لہٰذا کتاب وسنت کی جو باتیں عقل کے مطابق ہوں گی قبول کی جائیں گی اور جو
Flag Counter