Maktaba Wahhabi

299 - 531
﴿وَ اِنِّیْٓ اُعِیْذُہَابِکَ وَ ذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾(آل عمران: ۳۶) ’’اور حقیقت میں اس کو اور اس کی ذریت کوشیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ‘‘ بخاری یہ حدیث جس باب کے تحت لائے ہیں اس کا عنوان سورۂ مریم کی اس آیت کو قرار دیا: ﴿وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَہْلِہَا مَکَانًا شَرْقِیًّا﴾ (مریم: ۱۶) ’’اور کتاب میں مریم کے اس وقت کا ذکر کرو جب وہ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر مشرقی جگہ گوشہ نشین ہوگئی تھی ۔‘‘ تیسري حدیث:…مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا: ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا: ہم کو معمر نے زہری سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے خبردی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی مولود پیدا نہیں کیا جاتا، مگر یہ کہ شیطان اس کو اس کے پیدا کیے جانے کے وقت چھوتا ہے اور وہ شیطان کے اپنے چھوئے جانے سے چیخ اٹھتا ہے، سوائے مریم اور ان کے بیٹے کے۔‘‘ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو: اور میں اس کو اور اس کی ذریت کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔[1] تشریح:…یہ حدیث پہلی جس سند سے آئی ہے اس میں شیطانی مس اور چھوت سے صرف عیسیٰ علیہ السلام کو مستثنیٰ اور محفوظ قرار دیا گیا ہے اس حدیث میں یہ تصریح بھی ہے کہ شیطان نے ان کو بھی چھونا اور کچو کا لگانا چاہا تھا، لیکن وہ صرف اس جھلی یا غلاف کو چھو سکا جس میں وہ لپٹے ہوئے تھے اور جس کو ’’مشیما‘‘ کہتے ہیں یہ وہ جھلی ہے جس میں تمام بچے رحم مادر میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے رحم کی غلاظتوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ بعد کی دونوں سندوں سے یہ حدیث جن الفاظ میں روایت کی گئی ہے ان میں معمولی اختلاف کے علاوہ شیطانی’’مس ‘‘سے عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ان کی والدہ ماجدہ کو بھی مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، یہ دراصل اختصارد تففصیل کا اختلاف ہے اور پہلی حدیث میں مریم کا ذکر نہ آنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس فضیلت میں وہ شامل نہیں تھیں ، اختصار و تفصیل کی اس طرح کی مثالیں خود قرآن پاک میں بھی موجود ہیں ، اس کی بین مثال سورۂ آل عمران اور سورۂ مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ کے واقعہ کا ذکر ہے جو پہلی جگہ سے دوسری جگہ مختلف الفاظ اور مختلف اسلوب میں بیان ہوا ہے، اور تفصیلات بھی مختلف ہیں ۔ ایک ہی حدیث کے مختلف سندوں سے مروی ہونے کی صورت میں اس کے الفاظ، اسلوب بیان اور اختصار و تفصیل کے اختلافات کی وضاحت کرتے ہوئے کسی جگہ میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ ایک ہی صحابی سے روایت کی جانے والی ایک حدیث میں جو بعض اختلافات ملتے ہیں ، اگر وہ متضاد نہیں ہیں تو اس بات کا نتیجہ ہیں کہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحاب سے موقع و محل کے اعتبار سے وہ حدیث مختلف الفاظ میں ارشاد فرمائی ہو، یا اس صحابی نے کبھی
Flag Counter