Maktaba Wahhabi

318 - 531
حدیث میں ظن سے بچنے اور اس کو سب سے بڑا جھوٹ قرار دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مذموم صفات سے منع فرمایاہے اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ’’ظن ‘‘ سے مراد ایسا گمان ہے جس کے پیچھے کوئی یقینی دلیل و برھان نہ ہو، بلکہ بدخواہی کا جذبہ کار فرما ہو، ایسی صورت میں اس سے اس خبر کی ظنیت پر استدلال کس طرح درست ہوسکتا ہے جو ایک عدل وضابط راوی کسی دوسرے کے حوالہ سے دیتا ہے، پھر اس حدیث سے حدیث واحد کے ظن وگمان ہونے اور یقین واذعان نہ ہونے کا مفہوم نکالنا ایک ایسے راوی یا خبر دینے والے کی تکذیب یا کم ازکم اس کی صداقت اور سچ گوئی کو مشکوک بنانا ہے جو صدق گوئی اور امانت داری کے ساتھ حددرجہ قابل اعتماد حافظہ کا مالک ہو ایسا کرنے سے حدیث کے مطابق معاشرے کے بدخواہ لوگوں کی ٹوہ میں رہنے والوں ، ایک دوسرے کی جاسوسی کرنے والوں اور بغض و نفرت سے موصوف لوگوں سے ان پاکباز لوگوں کو تشبیہہ دینا لازم آتا ہے جو امانت داری حسن اخلاق، انسانیت اور خدا ترسی کے ساتھ ساتھ قابل اعتماد حافظہ سے بھی موصوف ہوں ، اوریہ اعلی صفات تک کے مالک لوگ اگر تواتر کی تعداد میں نہ ہوں تو ان کی دی ہوئی خبر یقینی نہیں رہ جاتی ایسا دعویٰ کرنے والا جہاں خود وہم وخیال کا مریض ہے، وہیں اپنے اس دعوے کے حق میں اللہ کی کتاب سے کوئی دلیل نہیں رکھتا۔ دراصل یہ حدیث سورۂ حجرات کی ۱۲ویں آیت کی بہترین تفسیر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بکثرت گمان کرنے سے منع فرمایاہے او ر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مزید چند مذموم صفات سے منع فرمایاہے، ارشاد باری الٰہی ہے: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنْ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌوَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا﴾ (الحجرات: ۱۲) ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو، درحقیقت بعض گمان گناہ ہے اور نہ ایک دوسرے کی جاسوسی کرو او ر نہ تم میں سے بعض بعض کی غیبت کرے ‘‘ اس آیت کا سیاق وسباق یہ بتا رہا ہے کہ’’گمان ‘‘ سے کیا مراد ہے اور اس سے’’سماع ‘‘ پر مبنی ایک سچی خبر کو ظن قرار دینا زبان وبیان کا مذاق اڑانا ہے۔‘‘
Flag Counter