Maktaba Wahhabi

330 - 531
ہوئی تھی، اس لیے کہ یہ امر واقعہ کے خلاف ہے اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ مصحف صدیقی تیار کرتے وقت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو سورۂ توبہ کی آخری دو آیتیں (۱۲۸۔ ۱۲۹) صرف ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس اور سورۂ احزاب کی ۲۳ ویں آیت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملیں اور انہوں نے ان کو ان کی سورتوں میں ان کی جگہوں پر لکھ کر ثبت کر دیا۔ [1] یہ تینوں آیتیں کاتب وحی اور مصحف صدیقی تیار کرنے والے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بھی یاد تھیں او انہوں نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بارہا تلاوت کرتے ہوئے سنا بھی تھا،بایں ہمہ واقعات کی روشنی میں ان کے تواتر سے منقول ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا، پھر بھی ان کے قرآن کی دوسری آیتوں اور سورتوں کی طرف کلام اللہ ہونے کا حق الیقین ہے۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چیز کا لکھا ہوا ہونا اس کے یقینی ہونے کی شرط ہر گز نہیں ہے، بلکہ یہ واقعہ یہ ثابت کر رہا ہے کہ ضبط تحریر میں لائی جانے والی خبر کی صحت حافظہ میں محفوظ خبر پر موقوف ہے۔ دراصل قرآن کے ہر تحریف و تبدیلی اور ہر زیادتی و نقص اور ہر ملاوٹ اور آمیزش سے پاک صورت میں محفوظ ہونے کا سبب اس کا اعجاز ہے، اس کا تواتر سے منقول ہونا نہیں ہے اور اس کے اعجاز کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مانند کوئی کلام بنانا اور وضع کرنا انسانی استطاعت و قدرت سے باہر ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے اپنے مانند کوئی ایک بھی سورت بنانے اور لانے کا مطالبہ کر کے اپنے منزل من اللہ ہونے میں شک کرنے والوں کو چیلنج کیا ہے۔ ﴿وَ اِن کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّن مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا شُہَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ، فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ﴾ (البقرۃ: ۲۳،۲۴) ’’اور ہم نے اپنے بندے پر جو نازل کیا ہے اگر تم اس کے کسی حصے کے بارے میں شک میں ہو تو اس کے مانند کوئی ایک ہی سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اپنے حمایتیوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو سو اگر تم یہ نہ کر سکے اور ہر گز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچنے کا ذریعہ تلاش کرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو انکار کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہی چیلنج سورۂ اسراء میں دوسرے الفاظ میں کیا ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا﴾ (الاسراء: ۸۸) ’’کہہ دو: اگر انسان اور جن اس قرآن جیسا کلام لانے پر اتفاق کر لیں تو وہ اس کے مانند کلام نہ لا سکیں گے
Flag Counter