Maktaba Wahhabi

340 - 531
شکست کا اعتراف کر لیا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن جیسی کوئی آیت بنا کر پیش کرنے کا چیلنج کبھی نہیں کیا ہے، یہ درست ہے کہ قرآن پاک کی ہر ہر آیت اپنی بلیغانہ شان رکھتی ہے، مگر سورتوں کی طرح ہر ہر آیت اعجازی شان نہیں رکھتی، بلکہ ان کی باہمی ترکیب اور نظم سے یہ اعجاز پیدا ہوتا ہے، قرآن پاک میں ایسی آیتیں ضرور ہیں جو سیاق و سباق سے الگ رہ کر بھی معانی اور مطالب کا سمندر ہیں اور جو اعجاز تمام سورتوں کو ایک ایک کر کے حاصل ہے ان کو بھی حاصل ہے، جیسے آیۃ الکرسی، لیکن آیت تو ﴿اِِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ﴾ بھی ہے، ﴿قُلْ ٰٓیاََیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ﴾ اور ﴿تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ﴾ بھی تو ان آیتوں کو دوسری آیتوں سے مل کر اعجازی شان حاصل ہوئی ہے، جبکہ آیۃ الکرسی تنہا اعجازی شان رکھتی ہے۔ یہاں یہ واضح کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا کلام ہونے کے اعتبار سے قرآن پاک کی آیتوں اور سورتوں میں فرق مراتب نہیں ہے، لیکن مضامین، مطالب اور معانی کے اعتبار سے ان میں فرق مراتب ہے، مثلاً سورۂ بقر کی آیۃ الکرسی (۲۵۵) اور آیت نمبر (۲۸۵) اسی سورت کی آیۃ الدین (۲۸۲) سے افضل ہے۔ اسی طرح سورۂ اخلاص سورۂ عصر سے افضل ہے اور سورۂ فاتحہ کو جو فضیلت حاصل ہے وہ کسی دوسری سورت کو حاصل نہیں ، اسی وجہ سے نماز کی ہر رکعت میں اور امام کے پیچھے اور تنہا اس کا پڑھنا فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی یہ حیثیت قرآن کی کسی دوسری سورت کو حاصل نہیں ہے۔ ۵۔ قرآن کے قولی تواتر کے ساتھ اس بات کی گنجائش ہمیشہ موجود رہی ہے کہ کسی بھی آیت کے بارے میں ابہام یا تردد کی صورت میں اصل متن یا TEXT سے اس کا موازنہ کیا جائے۔ یہ ڈاکٹر برنی کی بڑ یا مفروضہ ہے جس کا عالم واقعہ سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، ان کے اس دعویٰ کا مطلب یہ ہے کہ ’’حفظ سینہ‘‘ کو اگر تواتر کا درجہ بھی حاصل ہو تب بھی کسی آیت کی صحت میں شک یا اس کے کلام الٰہی ہونے میں شک یا کسی لفظ کی صحت میں شک ہو جانے کی صورت میں تحریری متن اور عبارت کو دیکھ کر حافظہ میں موجود متن اور عبارت کی تصحیح کی ضرورت قائم رہتی ہے۔‘‘ برنی نے ’’تردد‘‘ اور ’’ابہام‘‘ کے الفاظ سے جو بات کہنی چاہی ہے ان سے اس کی صحیح ترجمانی نہیں ہوتی۔ ’’تردد‘‘ پس و پیش کے اظہار کے لیے بولا جاتا ہے اور ابہام کا تعلق معانی سے ہے، جبکہ ان کا دعویٰ قرآن کے کسی لفظ یا آیت کی صحت میں شک ہونے کی صورت میں تحریری قرآن سے اس شک کو رفع کرنے سے متعلق ہے، علمی مباحث میں الفاظ ناپ تول کر استعمال کیے جاتے ہیں ، الا یہ کہ کسی کے اندر ’’علمی بزدلی‘‘ ہو تو وہ اپنی بات واشگاف انداز میں نہیں کہتا ایک بہت خوبصورت عربی مثل ہے ((ان کنت کذوباً فکن ذکوراً)) ’’اگر تم بہت بڑے جھوٹے ہو تو مرد بنو۔‘‘ قرآن پاک کے نزول کے وقت سے لے کر آج تک ایسا کوئی ایک بھی واقعہ ریکارڈ میں نہیں آیا ہے کہ سینوں میں محفوظ قرآن پاک کے کسی لفظ کی صحت میں شک ہو جانے کی صورت میں تحریری قرآن سے رجوع ہونے کی ضرورت
Flag Counter