Maktaba Wahhabi

342 - 531
اس کے باوجود تورات تحریف و تبدیلی سے محفوظ نہ رہی جو محض دعوی نہیں ہے، بلکہ متعدد آیات قرآنی اس میں کی جانے والی تحریفات کی تصریح کرتی ہیں ، قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ علمائے بنو اسرائیل اپنے ہاتھوں سے تورات میں اضافی عبارات لکھ کر ان کو اللہ کی طرف منسوب کر دیتے تھے: ﴿فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ:۷۹) ’’پس بڑی تباہی ہے ان کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں ، پھر کہتے ہیں یہ اللہ کے پاس سے ہے۔‘‘ درحقیقت قرآن پاک کی طرح تورات کے قراء اور حفاظ نہیں تھے اور اس کے نزول پر صرف چند صدیاں ہی گزری تھیں کہ تورات ناپید ہو گئی، یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ نے عزیر علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو انہوں نے اپنے حافظہ سے املا کر کے اس کو قلم بند کرایا یہ دیکھ کر یہودیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ عزیر بشر نہیں ، بلکہ اللہ کے بیٹے ہیں ، کیونکہ ان کے خیال میں کسی بشر کا حافظ تورات ہونا محال تھا۔[1] اس کے برعکس قرآن پاک محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر جستہ جستہ اس طرح نازل کیا جاتا تھا کہ حامل وحی جبریل علیہ السلام اپنی فطری آواز میں نازل ہونے والی آیات اور سورتیں آپ کو سناتے تھے، جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پورے دھیان اور شوق سے سنتے اور وہ آپ کے لوح قلب پر نقش ہو جاتیں ، پھر یہ قرآنی آیات اور سورتیں آپ کی زبان مبارک سے براہ راست یا بالواسطہ صحابہ کرام سنتے اور اپنے سینوں میں محفوظ کر لیتے اس طرح ۲۳ برسوں میں وعدۂ الٰہی: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾پورا ہوتا رہا اور قرآن پاک کا اصل اور قابل اعتماد نسخہ، بلکہ نسخے سینوں ہی میں تیار ہوتے رہے جو ہر طرح کے نسیان، تحریف و تبدیلی اور آمیزش سے پاک رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قرآن کے نازل ہونے والے اجزاء بلاشبہ قلم بند بھی کر لیے جاتے تھے، مگر ان کا علم صرف ان کو ہوتا جو ان کے لکھنے کے مکلف تھے عام افراد کی نہ ان تک پہنچ تھی، نہ ان کو ان کی ضرورت تھی اور نہ کبھی ایسا کوئی واقعہ ہی پیش آیا کہ حافظہ میں محفوظ قرآن کی کسی آیت یا لفظ کی صحت کے بارے میں کوئی شک ہوا ہو اور اس کو رفع کرنے کے لیے تحریری قرآن سے رجوع ہونے کی ضرورت پڑی ہو۔ قرآن پاک کی حفاظت کا یہی طریقہ پوری تین صدیوں میں زیر عمل رہا وہ سینہ بسینہ ہی منتقل ہوتا رہا، اگر کچھ لوگ قرآن پاک کے نسخے تحریری شکل میں تیار کرتے بھی رہے ہوں گے تو اپنے ذاتی استعمال کے لیے نہ کہ افادۂ عام کے لیے، کیونکہ افادۂ عام کے لیے لاکھوں نسخوں کی ضرورت تھی!!! ٹھیک اسی طرح حدیث پاک بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر اور سینوں میں محفوظ کر کے لوگوں
Flag Counter