Maktaba Wahhabi

346 - 531
کی باتیں سننے کے بعد خاموشی اختیار فرما لی تھی، اب جہاں تک اس مرسل روایت کا تعلق ہے جو حسن بصری نے عبد الرزاق سے روایت کی ہے، اور جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے کہ ’’شاید تمہارے کان نے سننے میں غلطی کی ہو‘‘ یا ’’شاید تم پر معاملہ مشتبہ ہو گیا‘‘[1]تو اولاً تو یہ مرسل روایت ناقابل اعتبار ہے ثانیا اس سے بھی ان کی غلط بیانی کا مفہوم نہیں نکلتا، تکذیب تو اس سے بھی برا لفظ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ بن أبی کا نفاق معلوم تھا، آپ کو اس کی ریشہ دوانیوں کا بھی علم تھا اور جس موقع و محل میں یہ واقعہ پیش آیا تھا اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی تھی کہ ابن ابی نے وہ بات ضرور زبان سے نکالی ہے جس کی خبر زید بن ارقم نے دی تھی اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی گرفت نہیں فرمائی اور اس کی ان سنگین باتوں کے جواب میں کوئی عملی اقدام نہیں کیا؟ مذکور بالا سوال یا اشکالات کا جواب حسب ذیل ہے۔ ۱۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے صحابہ کرام، خصوصیت کے ساتھ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم تھا کہ عبد اللہ بن أبی بہت بڑا منافق اور دشمن اسلام ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی حکمت سے منافقین کے تمام اوصاف تو بیان فرما دئیے تھے اور اہل ایمان کو ان سے ہوشیار رہنے کا بار بار حکم بھی نازل فرما دیا تھا، مگر کسی ایک بھی آیت میں نام لے کر کسی منافق کا ذکر نہیں کیا تھا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حکمت الٰہی کے مطابق عمل پیرا تھے اور منافقین کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ ۲۔ منافقین مدینہ کے جن قبیلوں اور خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے ان کی اکثریت مسلمان تھی اور عبد اللہ بن أبی کا تعلق بھی مدینہ کے دونوں معروف قبیلوں ، اوس و خزرج میں سے ایک یعنی خزرج سے تھا جس کے سردار مشہور صحابی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے اور خود اس کے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جان نثار اور بدری صحابی تھے اور ان کا اپنے باپ سے نہایت جذبانی لگاؤ تھا، اور سعد بن عبادہ، عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی اور خزرج سے نسبت رکھنے والے مسلمانوں کو یقینی طور پر یہ نہیں معلوم تھا کہ عبد اللہ بن ابی منافق ہے، اگرچہ وہ اس کی منافقانہ روش سے نالاں تھے ایسی صورت میں ابن ابی کے خلاف کوئی اقدام کرنا اپنے پیچھے جو سنگین نتائج لا سکتا تھا ان کو سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ ۳۔ جس موقع و محل میں ابن ابی نے یہ باتیں اپنی ناپاک زبان سے نکالی تھیں اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنو المصطلق کو شکست دینے(۵ھ) کے بعد لشکر اسلام مریسیع نامی کنویں کے قریب ایک آبادی میں ٹھہرا ہوا تھا اور اتفاق سے مذکورہ کنویں پر ایک مہاجر اور ایک انصاری کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی اور مہاجر نے انصاری کو پیچھے سے ایک لات
Flag Counter