Maktaba Wahhabi

350 - 531
کم تھی جن کے سینوں میں مجموعی طور پر، انفرادی طور پر نہیں پورا قرآن پاک محفوظ تھا، ورنہ اس خوف اور اندیشہ کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفۂ اول ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآن کے حوالہ سے جو مشورہ دیا تھا وہ اس کو ایک صحیفہ میں ترتیب کے ساتھ ’’جمع‘‘‘ کر دینے سے متعلق تھا۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قرآن کی جو کتابت ہوتی تھی وہ نزولی تھی اس لیے وہ مختلف چیزوں پر اور متفرق شکل میں لکھ کر محفوظ کیا جاتا رہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز تک اسی متفرق شکل میں لکھا ہوا موجود رہا، البتہ قراء کے سینوں میں جو قرآن محفوظ ہوتا رہا وہ اس ترتیب سے تھا جس ترتیب سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں کے اندر اور نمازوں سے باہر اس کی تلاوت فرماتے تھے اور صحابۂ کرام کو سناتے رہتے تھے، اس طرح قراء کے سینوں میں وہ اس طرح مرتب تھا جس طرح ’’لوح محفوظ‘‘ میں مرتب ہے اور یہ اس کے ’’الکتاب‘‘ ہونے کا لازمی تقاضا بھی ہے، اس لیے کہ ’’کتاب‘‘ کا اطلاق اس مجموعۂ تحریر پر ہوتا ہے جو مرتب ہو اور عدم ترتیب کتاب کا نقص اور عیب ہے جس سے اللہ کی کتاب، جو کتاب منیر اور کتاب مبین ہے پاک ہے۔ اگر قراء کے سینوں میں بھی قرآن غیر مرتب ہی ہوتا تو ان سب کے وفات پا جانے سے بھی اس کے ضائع ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا، اس واقعہ میں ایک نہایت اہم نکتہ یہ بھی مضمر ہے کہ قابل اعتماد اور مستند چیز حفظ سینہ ہی ہے حفظ سفینہ نہیں ، ورنہ غیر مرتب ہی سہی قرآن پاک لکھا ہوا تو موجو دتھا!!! مزید یہ کہ قرآن پاک سورۂ فاتحہ سے لے کر سورۂ ناس تک ۱۱۴ سورتوں اور لگ بھگ ۳۶۰۰ آیتوں سے عبارت ہے اس تناظر میں اس کا ایک نسخہ تیار کرنا اس زمانے کے امکانات کے پیش نظر محنت طلب تو ضرور تھا، مگر ناممکن اور مالایطاق ہر گز نہیں تھا۔ رہی حدیث تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریروں یا تصویبات کا مکمل ریکارڈ ہے، اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور دوسری فوجی مہمات یعنی سرایا کی تفصیلات بھی ہیں اور شمایل و سیرت پاک کے روشن اور روح پرور واقعات بھی اور حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبل از بعثت کے غیر معمولی اور انفرادی اوصاف اور آداب و اخلاق عالیہ کی جھلکیاں بھی ہیں ۔ پیارے نبی فداہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیچھے ایک لاکھ چوبیس ہزار جان نثار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ان جان نثاروں میں سے ہر ایک کے سینے میں آپ کی سیرت پاک کا کوئی نہ کوئی واقعہ، آپ کی کوئی نہ کوئی سنت اور آپ کا کوئی نہ کوئی ارشاد محفوظ رہا ہو گا، کیونکہ آپ کے رخ انور پر ایک نظر ڈال لینا، آپ کے کسی ایک ہی ارشاد کو سن کر اپنے لوح قلب پر نقش کر لینا اور آپ کے کسی عمل کو دیکھ کر اس کو اپنے ذہن میں بسا لینا اور اس کو نمونۂ تقلید بنا لینا ان کا حاصل زندگی اور ان کا سرمایۂ حیات تھا۔
Flag Counter