Maktaba Wahhabi

353 - 531
والا ہر ارشاد، آپ کا ہر عمل اور آپ کی سیرت پاک کا ہر واقعہ ان کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہو اور اس کو معلوم کرنا اور معلوم کر کے اس کو اپنے سینوں میں محفوط کر لینا ان کا حاصل زندگی ہو۔ اسلام تصوف نہیں ہے وہ اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نہ دن و رات عبادات میں مصروف رکھنے کا حکم دیتا ہے، نہ ترک دنیا اور دنیا والوں یا خلق خدا سے تعلق توڑنے اور منقطع کر لینے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام نے اس دنیا کو دارالعمل قرار دیا ہے لہٰذا اللہ تک پہنچنے اور اس کی رضا کے حصول کا راستہ کاروبار حیات اور اللہ کے بندوں سے تعلقات باقی رکھنے کے اندر سے گزرتا ہے، اسلام کی نظر میں ہر مؤمن و مسلمان جہاں اللہ کی فرض کردہ عبادتوں کے بارے میں جواب دہ ہے وہیں وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں جواب دہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اسلامی تعلیمات کی عملی تصویر تھے اور قرآنی احکام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے مطابق زندگی کے شب و روز گزارنا ان کا نصب العین تھا، مگر اس کے لیے نہ یہ ضروری اور لازمی تھا کہ وہ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں حاضری دیں ، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کا پابند بنایا تھا اور نہ ضروریات زندگی کا حصول ان کو اس کا موقع ہی دیتا تھا اس تناظر میں اکثر صحابۂ کرام تو کاروبار حیات میں مصروف رہتے اور معدودے چند جو بال بچے نہیں رکھتے تھے یا جو کاربار حیات نہیں رکھتے تھے یا جو زراعت پیشہ یا تاجر نہیں تھے وہ اپنا بیشتر وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے اور آپ سے کتاب و حکمت کی تعلیم حاصل کرنے میں گزارتے اور جو کچھ آپ سے سیکھتے وہ ان لوگوں کو سکھاتے جن کو آپ کی مجلسوں میں زیادہ شرکت کا موقع نہیں ملتا تھا اس طرح قرآن بھی پھیلتا رہا اور احادیث رسول کی بھی ترویج ہوتی رہی، عجیب اور قابل غور بات یہ ہے کہ ان دونوں فریقوں کے مذکورہ طرز عمل میں اس بین اختلاف کے باوجود ان میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں حاصل تھی، بلکہ دونوں اللہ و رسول کی نظروں میں محبوب تھے اور اگر ان میں سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل بھی تھی تو اس کے اسباب کچھ اور تھے۔ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اس کو ایک مثال سے سمجھئے: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ((کنت أنا وجارٌ لی من الأنصار فی بنی أمیۃ بن زید وھم من عوالی المدینۃ۔ وکنا نتنا وب النزول علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، فینزل یوماً وأنزل یوماً۔ فاذا نزلت جئتُہ بما حدث من خَبَر ذلک الیوم من الوحی او غیرہ، واذا نزل فعل مثل ذلک)) [1] ’’میں اور مدینہ کے بالائی گاؤں میں سکونت پذیر بنو امیہ بن زید کے ایک انصاری پڑوسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باری باری حاضر ہوتے رہتے تھے، ایک دن وہ حاضر ہوتے اور ایک دن میں ، اگر میں آپ کی
Flag Counter