Maktaba Wahhabi

356 - 531
چنانچہ صحیحین کے مطابق جب یمن کے ایک صحابی ابو شاہ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا تو آپ سے یہ درخواست کی کہ آپ ’’میرے لیے اسے لکھوا دیں ‘‘ اس پر آپ نے فرمایا: ((’’اکتبوا لأبی فلان‘‘ او اکتبوا لأبی شاہ)) [1] ’’ابو فلاں کے لیے لکھ دو‘‘ یا ’’ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔‘‘ علامہ احمد شاکر کی بات ختم ہوئی۔[2] اس حدیث میں جو اہم معانی مضمر ہیں وہ درج ذیل ہیں : ۱۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو شاہ کی درخواست پر کسی ایک شخص کو مخاطب بنا کر اسے خطبہ قلم بند کرنے کا حکم دینے کے بجائے جمع کا صیغہ((اکتبوا)) استعمال فرمایا ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ تھے جو اس وقت آپ کے پاس موجود تھے اور لکھنا جانتے تھے اور ان میں سے کسی کا بھی ابو شاہ کے لیے آپ کا خطبہ تحریر کر دینا دوسروں سے اس کا حکم ساقط کر سکتا تھا اور فعلاً کسی ایک ہی نے اسے تحریر بھی کیا ہو گا اور ظاہر سی بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خطبہ زبانی دیا تھا اور جن لوگوں کو مخاطب بنا کر آپ نے ((اکتبوا)) فرمایا تھا، ان میں سے ہر ایک نے اسے اپنے سر کے کانوں ہی سے سنا تھا، پھر ان میں سے کسی ایک کا اٹھ کر اس کو قلم بند کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے محض ایک بار سن کر ہر ایک نے اسے اپنے سینہ میں مکمل طور پر محفوظ کر لیا تھا جس کا تجربہ کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا، ورنہ آپ حکم عام دینے کے بجائیے ان میں سے مخصوص طور پر کسی ایک کو اس کا مکلف بناتے۔ ۲۔ جس صحابی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خطبہ لکھا ہو اس نے پوری امانت داری سے اسے لکھا ہو گا اور اس میں کوئی تبدیلی یا کمی و بیشی نہیں کی ہو گی، کیونکہ ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول سے خیانت تھی جس کا صدور کسی صحابی سے بعید از امکان تھا۔ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام میں سے بیشتر لوگوں کے لیے …سب کے لیے نہ سہی۔ احادیث کو ایک بار سن کر لوح قلب پر جوں کا توں نقش کر لینا معمول کی بات تھی اور یقینی ذریعۂ علم سماع تھا۔ ۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ ایک جم غفیر کے سامنے دیا ہو گا، کیونکہ موقع کا تقاضا یہی تھا، مگر اس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور ان سے اس کے راوی بھی صرف ایک تابعی ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف متوفی ۹۴ھ ہیں اس کے باوجود اس حدیث پر فرد واحد کی روایت ہونے کا اطلاق درست نہیں ہے، بلکہ اگر حدیث متواتر کا عالم واقعہ میں کوئی وجود ہے تو یہ حدیث واحد نہیں ، حدیث متواتر ہے، اس لیے کہ نہ تو اس حدیث کے خلاف کوئی حدیث کسی صحابی نے روایت کی ہے اور نہ اس کے مضمون کے خلاف۔
Flag Counter