Maktaba Wahhabi

377 - 531
بزدوی کے اس قول کے ساتھ شمس الائمہ سرخسی کا یہ فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ ’’اخبار احاد‘‘ کا منکر بالاتفاق کافر نہیں ہے۔ [1] ان کے مذکورہ بالا دعادی میں جس کا تعلق ’’احادیث احاد‘‘ سے ہے اس پر تفصیلی بحث تو ان شاء اللہ حدیث واحد اور حدیث متواتر کے ذیلی عنوان کے تحت آئے گی۔ رہا یہ دعویٰ کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت حدیث کا اذن عام اس لیے نہیں دیا یا اس سے اس لیے منع فرما دیا کہ دین میں کچھ احکام خاص ہیں اور کچھ عام، خاص احکام دین کی ’’بینیات‘‘ سے عبارت ہیں اور عام ’’غیر بینیات‘‘ سے، اور اگر کتابت حدیث کی عام اجازت دے دی جاتی تو وہ ’’اخبار احاد‘‘ بھی لوگوں میں پھیل جاتیں جن کی تبلیغ مقصود نہیں تھی۔[2] تو اس دعویٰ کا ابطال پہلے کروں گا۔ اپنے اس دعویٰ کی تائید میں انہوں نے جہاں چند مفروضے قائم کیے ہیں وہیں بعض ضعیف اور ناقابل اعتماد روایتوں کا سہارا بھی لیا ہے۔ ان کے مفروضے نمبروار یہ ہیں : ۱۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث لکھنے سے جو منع فرمایا تھا، تو گویا یہ ان احکام میں فرق کو باقی و دائم رکھنے کی راہ میں پہلا قدم تھا جو ان دونوں ماخذوں قرآن و حدیث… سے ثابت ہیں اور قوت و ضعف میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔[3] ۲۔ حدیث کا یہ فقرہ: ((من کتب عنی غیر القرآن فلیمحہُ)) ’’جس نے میری نسبت سے قرآن کے سوا جو کچھ لکھ رکھا ہو اسے مٹا دے۔‘‘[4] اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نبی کریم رضی اللہ عنہ کی حیات پا ک میں ایسے لوگ تھے جو آپ کی احادیث قلم بند کیا کرتے تھے۔[5] ۳۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے سوا دوسری چیزیں لکھنے سے منع فرما کر اس اندیشے، یا خطرے کا گلا گھونٹ دیا تھا کہ احادیث کی تحصیل اور طلب کا جذبہ قرآن کی تحصیل اور طلب کے مساوی نہ ہو جائے اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو کتابت حدیث کی اجازت دے کر اس سوچ کا خاتمہ کر دیا تھا کہ ’’حالت غضب‘‘ میں آپ کی باتیں غلطیوں سے پاک نہیں ہو سکتیں ۔[6] ۴۔ عہد نبوی اور بعد کے قریبی زمانوں میں احادیث کو قلم بند نہ کرنے کی توجیہ کرتے ہوئے مصنف تدوین حدیث نے جو دعوے کیے ہیں وہ سب ان کی ’’بڑ‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہیں ، کیونکہ ان کے پیچھے ایک بھی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے، پھر ان دعووں کی تائید میں انہوں نے جن روایتوں سے استدلال کیا ہے وہ سب منکر اور جھوٹ ہیں اس طرح ان کا
Flag Counter