Maktaba Wahhabi

390 - 531
پڑھنے کی اجازت دینے کا سبب واضح ہے اور وہ یہ کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اذن سے محرف تورات پڑھے درانحالیکہ اس کے پاس اس کی تصحیح کرنے والا قرآن موجود ہو، اس کے لیے گمراہی میں پڑنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس سے مستفید ہو گا۔[1] جس حدیث کو گیلانی نے ’’رہی وہ بات جو طبرانی وغیرہ میں حضرت عمر کی طرف منسوب کی گئی ہے‘‘ کہہ کر ’’مجمع الفوائد‘‘ سے نقل کیا ہے تو عرض ہے کہ ’’مجمع الفوائد‘‘ کا پورا نام ’’مجمع الزوائد و منبع الفوائد‘‘ ہے حافظ نور الدین علی بن ابی بکر ھیثمی متوفی ۸۰۷ھ کی کتاب ہے جس کا شمار حدیث کی مستند اور امہات الکتب میں نہیں ہوتا، لہٰذا ’’تدوین حدیث‘‘ جیسے اہم اور گراں قدر موضوع پر کتاب کے مصنف کو اپنے کسی بھی دعویٰ کی تائید میں کوئی بھی حدیث کسی مستند کتاب سے نقل کر کے اس کی صحت و سقم کے بارے میں ائمہ نقد کی آرا پیش کرنے کی ضرورت تھی اور جو زور انہوں نے اپنے باطل اور گمراہ کن دعویٰ کی تائید میں دو منکر اور جھوٹی روایتوں سے استدلال کرتے ہوئے دکھایا ہے اس کا عشر عشیر ہی عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال میں دکھاتے جس کی سند اگرچہ انفرادی طور پر ضعیف ہے، لیکن کثرت طرق سے اس کو ’’حسن‘‘ کا درجہ حاصل ہے، رہا اس کا متن تو وہ متعدد صحیح احادیث کے مطابق ہے جس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں ۔ فن حدیث میں گیلانی کے مبلغ علم کے بارے میں عرض ہے کہ اس حدیث کے ضعیف ہونے کے ھیثمی کے حوالہ سے انہوں نے جو دلیل دی ہے وہ دلیل اس حدیث کی صحت و سقم سے بحث کرنے والے کسی بھی اہل علم نے نہیں دی ہے یعنی اس کی سند میں شامل ابو عامر قاسم بن محمد اسدی‘‘ کا مجہول ہونا۔ ان ضروری وضاحتوں کے بعد عرض ہے کہ: عمر رضی اللہ عنہ کی یہ زیر بحث حدیث امام احمد نے مسند میں جابر بن عبد اللہ اور عبد اللہ بن ثابت رضی اللہ عنہم سے تین مقامات پر کچھ لفظی اختلاف کے ساتھ نقل کی ہے۔[2] اور امام عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی متوفی ۲۵۵ھ نے سنن میں اور حافظ عمرو بن عاصم شیبانی متوفی ۲۸۷ھ نے کتاب السنۃ میں صرف جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث روایت کی ہے۔[3] اور حافظ ابو عمر یوسف بن عبد اللہ نمری قرطبی… ابن عبد البر… متوفی ۴۶۲ھ نے جامع بیان العلم میں دونوں صحابیوں ، جابر بن عبد اللہ اور عبد اللہ بن ثابت رضی اللہ عنہم کی روایت کردہ حدیثیں نقل کی ہیں ۔[4] مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ جن دوسری معتبر کتابوں میں یہ حدیث منقول ہے ان میں سے بعض کے نام ہیں :
Flag Counter