Maktaba Wahhabi

395 - 531
جعفی کا وجود ہے۔ ۲۔ مذکورہ حدیثوں میں سے صرف ایک حدیث میں عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل ہوا ہے: ((مررت بأخ لی من بنی قریظۃ…)) ’’میرا گزر بنو قریظہ کے ایک بھائی کے پاس سے ہوا‘‘ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب یہ قرار دینا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی کو بھائی کہہ دیا تھا بعید از فہم ہے، کیونکہ اگریہ سبب ہوتا تو اولاً تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ردعمل میں اشارۃ ہی سہی اس کا ذکر ہوتا ثانیاً آپ وہ بات نہ فرماتے جو ہر روایت میں آئی ہے، یعنی اگر موسی زندہ ہوتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے‘‘ دوسرے لفظوں میں صاحب تورات ہوتے ہوئے بھی ان کے لیے تورات پر عمل جائز نہ ہوتا۔ ۳۔ مذکورہ حدیثوں اور ان کے ساتھ صحیح حدیثیوں میں تو رات میں تحریف و تبدیلی کی جو خبر دی گئی ہے اس سے خود قرآ ن پاک بھرا پڑا ہے، اور ایک ایسی کتاب جو اللہ و رسول کی صراحتوں سے اپنی اصل شکل میں باقی نہیں رہی ہے قیامت تک کے لیے محفوظ کتاب، قرآن کے بعد اس قابل نہیں رہی ہے کہ اس سے کسی طرح کا بھی اہتمام برتا جائے۔ جبکہ عمر رضی اللہ عنہ کا طرز عمل کسی نہ کسی درجے میں اسی اہتمام کا غماز تھا۔ ۴۔ روایتوں کے مطابق عمر رضی اللہ عنہ نے تورات کے بعض حصوں کو پڑھنے کی اجازت چاہی، یا اس کا کچھ حصہ پڑھ کر سنانے لگے‘‘ یا ان کو تورات کی بعض باتیں پسند آ گئیں ‘‘ ان میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں تھی جس کو تورات یا صاحب تورات کی اتباع قرار دیا جا سکے، لیکن چونکہ اس سے ایک محرف اور تبدیل شدہ کتاب سے اہتمام اور دلچسپی کا اشارہ ملتا ہے اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کر کے یہ دو ٹوک حکم دے دیا کہ آپ کی بعثت کے بعد آپ پر نازل ہونے والی کتاب، قرآن اور آپ کی لائی ہوئی شریعت اور آپ کی سنت کے علاوہ کوئی اور دینی ماخذ درخور اعتنا نہیں ہے۔ ۵۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: اگر موسی ظاہر ہو جائیں اور تم ان کی پیروی کرنے لگو اور مجھے چھوڑ دو تو سیدھی راہ سے بھٹک جاؤ گے‘‘ میں ایک نہایت بنیادی شرعی حکم موجود ہے اور وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور رہتی دنیا تک کے لیے کتاب ہدایت قرآن کے نزول کے بعد کسی بھی نبی یا رسول اور اس کے ساتھ نازل ہونے والی کتاب سے کسی طرح کا بھی عملی تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی سے اعراض ہے۔ اگرچہ ایسا کرنے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر بھی عمل پیرا رہے۔ اس تناظر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ((لو بدالکم موسی فاتبعتموہ وترکتمونی)) ’’اگر موسی ظاہر ہو جائیں اور تم ان کی پیروی کرنے لگو اور مجھے چھوڑ دو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی بعثت کے بعد اگر کوئی موسی علیہ الصٰوۃ والسلام اور ان کی لائی ہوئی کتاب اور شریعت سے کسی طرح کا بھی عملی تعلق رکھے تو وہ محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت اور آپ کی لائی ہوئی کتاب اور شریعت کا تارک‘‘ شمار ہو گا، قطع نظر اس
Flag Counter