Maktaba Wahhabi

406 - 531
ا۔ اگر اس قول سے ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ مخلوق کے ہاتھوں کی طرح نہیں ہیں تو یہ حق اور صدق ہے۔ ب۔ اور اگر انہوں نے اپنے اس قول سے اللہ کے لیے ایسے حقیقی ہاتھ کی نفی کی ہے جو اس کی بے مثال ذات کے شایان شان ہے تو یہ بات باطل اور مردود ہے، اس لیے کہ اس سے ان آیتوں کا انکار لازم آتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ہاتھوں کا اثبات کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾ (ص:۷۵) ’’تجھے اس کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں اپنے دونوں ہاتھوں سے ’’کی تعبیر ’’ید‘‘ کے صرف وہی معنی مراد لینے کو ’’حتمی‘‘ اور یقینی بنا دیتی ہے جس کے لیے یہ لفظ بنا ہے، کیونکہ ہاتھ سے قدرت یا نعمت وغیرہ مراد لینا جہاں آیت کے سیاق و سباق کے خلاف ہے وہیں اس کے لیے ’’تثنیہ‘‘ کا صیغہ استعمال زبان کے بھی خلاف ہے۔ اس طرح ﴿بیدیَّ﴾ سے مراد حقیقی ہاتھ مراد لینا درست ہے۔ البتہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے جب ہاتھ، وجہ، آنکھ اور پاؤں کے الفاظ بولتے ہیں تو ان کے لیے اعضاء، یا جسم کے اجزاء وغیرہ نہیں بولتے اس لیے کہ کتاب و سنت میں نفیا یا اثباتا ان کا ذکر نہیں آیا ہے، بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ید، وجہ، آنکھ او رپاؤں اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات ہیں جن سے وہ ہمیشہ سے موصوف ہے اور ہمیشہ ان سے موصوف رہے گا اور یہ صفات کبھی اس کی ذات سے جدا ہوئی ہیں اور نہ کبھی ہوں گی اور وہ مخلوق کے اعضاء کی طرح نہیں ہیں ، البتہ ہم یہ کہتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ ان الفاظ کے وہی معنی مراد ہیں جن کے اظہار کے لیے یہ الفاظ بنائے گئے اور وضع کئے گئے ہیں ، اس لیے کہ دنیا کی ہر زبان حقیقت کے اظہار کے لیے وجود پذیر ہوئی ہے مجازی معنی کے اظہار کے لیے نہیں ۔ ۲۔ خطابی نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ’’انگلی‘‘ کے ذکر کو یہودی عالم کی جس آمیزش کے امکان کا اظہار کیا ہے، کیونکہ بقول ان کے یہودیوں کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے ہیں ‘‘ تو اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ یہودی عالم نے اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے صرف انگلی کا اثبات کیا ہے اس کو مخلوق کی انگلی سے تشبیہ نہیں دی ہے، اب اگر اللہ تعالیٰ کے لیے محض انگلی کا ذکر مخلوق سے اس کو تشبیہ دینا ٹھہرا تو آپ ان آیتوں کے بارے میں کیا کہیں گے جن میں اللہ کے لیے چہرہ، آنکھ اور ہاتھ اور نفس کا ذکر آیا ہے، کیا محض ان صفات کے ذکر سے بھی یہ لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے مشابہ ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو کیا اس یہودی عالم پر یہ بے جا الزام نہیں ہے؟ پھر اگر یہودیوں پر ’’مشبہ‘‘ ہونے کا الزام درست ہے تو کیا کتاب و سنت سے ثابت اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار، یا ان کے ظاہری الفاظ سے نکلنے والے معنوں کے بجائے اپنی طرف سے ان کے معنی متعین کرنا تعطیل نہیں ہے؟ اگر ہے اور یقینا ہے تو پھر تشبیہ کا مرتکب
Flag Counter