Maktaba Wahhabi

416 - 531
امر واقعہ دونوں کے خلاف ہے اور اس مسئلہ میں ابن حزم کی ’’کتاب الفصل فی الملل والنحل‘‘ کا حوالہ کوئی قابل اعتماد علمی قیمت نہیں رکھتا، اس لیے کہ اولاً تو انہوں نے اپنی اس بات کی کوئی دلیل نہیں دی ہے، بلکہ محض مفروضے کے طور پر عیسائیوں کا جواب دیتے ہوئے اس کا ذکر کر دیا ہے۔ ثانیا ایک لاکھ نسخوں کی کتابت اور ان کی اشاعت تو افسانوی خیال آرائی ہے، اگر انہوں نے صرف ۱۰۰ نسخے ہی لکھوا کر پھیلائے ہوتے تو ان کا سیرت کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں حوالے کے ساتھ ذکر ہوتا، جبکہ اس موضوع پر کسی بھی معتبر کتاب میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کے برعکس قرآن پاک کی کتابت کے موضوع پر گزشتہ صفحات میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کے ضمن میں صحیحین کے حوالے سے یہ بات آ چکی ہے کہ مصحف صدیقی کے کوئی ۲۱ برس بعد جب خلیفۂ سوم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے قریش کے لہجے پر لوگوں کو جمع کرنے کی غرض سے قرآن کے نسخے تیار کرانے کا ارادہ کیا تو ان کو ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہ سے درخواست کر کے ان سے وہ مصحف صدیقی لینا پڑا جو اس وقت ان کی تحویل میں تھا، حالانکہ ایک لاکھ نسخوں کے دعوی کے صحیح ہونے کی صورت میں دارالخلافت مدینہ منورہ میں کم از کم سو نسخے تو ہونے ہی چاہیے تھے!!! گیلانی نے قرآن کے ایک لاکھ نسخوں کی کتابت اور اشاعت کے دعوی کے بعد پچاس ہزار حدیثوں کی کتابت کے امکان کا جو دعویٰ کیا ہے وہ بآواز بلند یہ اعلان کر رہا ہے کہ وہ اس مسئلہ کو سمجھے ہی نہیں ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ: ۱۔ قرآن کی کتابت اور حدیث کی کتابت میں زمین و آسمان کا فرق ہے، قرآن سورۂ فاتحہ سے لے کر سورۂ ناس تک ایک مرتب کتاب ہے وہ چند افراد کے سینوں میں مکمل طور پر محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ متفرق شکل میں صحیفوں میں لکھا ہوا بھی تھا اس طرح تحریری صحیفوں اور حفظ سینہ کی مدد سے اس کو ایک مصحف میں جمع کرنا اس وقت کے حالات کی روشنی میں پر مشقت تو ضرور تھا، مگر قابل عمل تھا اس لیے ازراہ احتیاط ایک ہی کاتب۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ … کے خط میں اسے تحریر کرکے محفوط کر لیا گیا، واقعہ کی یہی صحیح تصویر ہے، بقیہ جو کچھ ہے وہم و خیال اور دعوی اور بڑ ہے۔ ۲۔ حدیث کوئی مرتب کتاب نہیں ہے، نہ ہو سکتی تھی اور نہ اس کا ایسا ہونا ضروری تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے عبارت ہے جو آپ قرآن پاک کے احکام، تعبیرات اور معانی کی تشریح و تفسیر سے متعلق بذات خود اور صحابہ کرام کے استفسارات کے جواب میں ، یا قرآن میں غیر مذکور احکام کی بحیثیت رسول،شارع، حاکم اور قاضی وغیرہ کے تفہیم و تلقین کے طور پر فرماتے رہتے تھے۔ اسی طرح حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال، سیرت اور ان تصویبات کے ایک مکمل ریکارڈ سے عبارت ہے جو صحابہ کرام کے الفاظ اور تعبیرات کی شکل میں تھی اور یہ معلوم و معروف ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابی چھوڑ کر رخصت ہوئے تھے جن میں سے ہر صحابی کے سینے میں حدیث رسول کی
Flag Counter