Maktaba Wahhabi

428 - 531
کی استعداد اخذ و قبول کے اعتبار سے آپ کے ارشادات میں جہاں اجمال و تفصیل کا اختلاف ہو جاتا وہیں ایک موقع کے الفاظ اور تعبیرات دوسرے موقع کے الفاظ و تعبیرات کے علاوہ ہوتیں ، مگر مفہوم سب کا ایک ہی ہوتا اس طرح کی مثالوں سے خود کتاب اللہ بھری پڑی ہے۔ جن احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال، سیرت و شمائل اور تقریروں اور مغازی کا بیان ہے وہ تمام تر صحابہ کرام کے الفاظ میں ہیں ان میں بھی اجمال و تفصیل کا اختلاف موجود ہے تضاد بیانی کا نہیں ، پھر ہر شخص کی قوت مشاہدہ، قوت بیان اور نسبت تاثر و انفعال دوسرے سے مختلف ہوتی ہے جس کو اس کے بیان میں دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے، ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمل دیکھا اور دوسرے نے دوسرا، یا کسی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے کسی گوشے کے بارے میں سوال کیا گیا اور دسرے سے دوسرے کے بارے میں اور ہر ایک نے اپنے مشاہدہ یا سوال کے بقدر جواب دے دیا۔ ایسا بھی ہے کہ مختلف راویوں نے ایک ہی بات یا واقعہ کے مختلف اجزاء نقل کیے ہیں ۔ صحیح احادیث میں پائے جانے والے مذکورہ قسم کے یا ان جیسے دوسرے ظاہری اختلافات میں سے ہر اختلاف کی حقیقت بادنی تأمل معلوم کی جاسکتی ہے اور ایسا اختلاف خود قرآن پاک میں بھی کوتاہ بینوں اور کور چشموں کو مل سکتا ہے۔ علامہ کشمیری کا دعوی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حدیث کی کتابت سے منع فرمانے کا مقصد جہاں یہ تھا کہ احادیث اختلافات سے پاک نہ ہوں وہیں ان کی صحت میں شبہات بھی باقی رہیں ، اور یہ اس لیے کہ ’’حدیث کا درجہ ثانوی ہے جس میں اجتہاد کی گنجائش ہے۔ یہ آخری فقرہ دراصل وہ ٹیپ کا بند اور بیت القصید ہے جس کی خاطر انہوں نے اتنے سارے گمراہ کن دعوے کیے ہیں ، علمائے احناف عموماً اور برصغیر کے احناف خصوصاً حدیث کے بارے میں یہی عقیدہ اور نظریہ رکھتے ہیں یہ دراصل معتزلہ کا نظریہ ہے جو بظاہر ان کے مخالف اور بباطن ان کے ہمنوا متکلمین… اشاعرہ اور ماتریدی… کا بھی نظریہ ہے۔ ہندوستان کے فقہائے احناف نور نبی، قبر مبارک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی زندگی، لولاک اور زیارت قبر مبارک سے متعلق جھوٹی روایات کو تو دل و جان سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں ، لیکن اپنے مسلک سے ٹکرانے والی صحیح ترین حدیثون کو سن کر اور پڑھ کر ان کی پیشانیوں پر نفرت کی سلوٹیں پڑ جاتی ہیں ۔ خوارج، معتزلہ اور اہل کلام کی اکثریت تشریعی حیثیت سے حدیث کو دوسرا درجہ دینے پر تو بہت اصرار کرتی ہے، لیکن اس کے حق میں اللہ کی کتاب سے کوئی دلیل نہیں رکھتی اس لیے اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیے فلسفیانیہ مجادلوں پر اتر آتی ہے خبر واحد اور خبر متواتر کی بحث بھی انکار حدیث ہی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے چونکہ میری اس کتاب میں خبر واحد اور خبر متواتر کی بحث اپنے مقام پر نہایت تفصیل سے اور منفرد انداز میں آ رہی ہے اس لیے میں کشمیری کے اس دعوی کے بارے میں مزید کچھ اور عرض نہیں کرنا چاہتا۔
Flag Counter