Maktaba Wahhabi

430 - 531
ایسا صحیح واقعہ بیان کر دوں جس میں اہل نظر کے لیے عبرت کا درس پہناں ہے، اور جس سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ یہ صوفی المشرب حنفی علماء علم حدیث سے کون سا علم مراد لیتے ہیں ۔ علمائے دیو بند میں ایک ایسے عالم اور صالح بزرگ مفتی محمد حسن گزرے ہیں جو اپنے علم و فضل اور اصلاح و تقویٰ کے ساتھ نہایت معتدل المزاج تھے اور دوسرے مسلک کے علماء خاص طور پر علمائے اہل حدیث سے بہت میل جول رکھتے تھے وہ متحدہ ہندوستان میں ۱۸۷۸ء میں پیدا ہوئے تھے ان کا مسکن پنجاب کا مشہور شہر امر تسر تھا جہاں کے مشہور اہل حدیث مدرسہ ’’غزنویہ‘‘ میں انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی اور اس کے لائق استاد اور مستند عالم حدیث مولانا عبد الجبار غزنوی سے تفسیر اور حدیث کی تکمیل کی اور سند حاصل کی۔ ان دنوں مشہور صوفی بزرگ مولانا اشرف علی تھانوی کا بڑا چرچا تھا اور ان کے حلقۂ ارادت سے وابستہ لوگوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس لیے مولانا محمد حسن کے دل میں بھی مولانا تھانوی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی خواہش پیدا ہوئی اور انہوں نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے اپنی خواہش کا اظہار بھی کر دیا، مگر مولانا تھانوی نے ان کو اپنی بیعت سے سرفراز کرنے سے قبل ان کے سامنے تین شرطیں پیش کیں جو مشرف ببـیعت ہونے سے قبل ان کو پوری کرنی تھیں۔ ان شرطوں میں سے ایک شرط یہ تھی کہ ’’وہ کسی حنفی مسلک کے استاد حدیث سے احناف کے انداز کے مطابق دورۂ حدیث کریں ۔‘‘ مولانا مفتی محمد حسن امر تسر میں مولانا عبد الجبار غزنوی سے کتب حدیث پڑھ چکے تھے اور ان سے حدیث کی سند بھی حاصل کر چکے تھے، جن کے علمی مقام و مرتبے سے مولانا تھانوی یقینا واقف رہے ہوں گے، بایں ہمہ چونکہ انہوں نے اہل حدیث کے طریقے کے مطابق تحصیل حدیث کی تھی، اس لیے مولانا تھانوی کے نزدیک ان کی عائد کردہ شرط پوری نہیں ہو رہی تھی اور ان کی خواہش تھی کہ کسی حنفی عالم حدیث کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے تحصیل حدیث کی سند حاصل کی جائے، اور مولانا محمد حسن نے ہمارے انہی ’’ہیرو‘‘ مولانا محمد انور کشمیری سے دورۂ حدیث کر کے ان کی عائد کردہ شرط پوری کر دی اور مولانا تھانوی کے حلقۂ بیعت میں شامل ہونے کا شرف حاصل کر لیا۔[1] مولانا تھانوی کے عقیدہ مندوں نے انہیں جن القاب سے نوازا ہے ان میں سے ایک ’’امام المجددین‘‘ بھی ہے، حدیث کے مطابق ایک مجدد دین کی اولین اور بنیادی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہو گی کہ وہ دین کو بدعت و خرافات سے پاک کر کے اسی شکل میں پیش کرے گا جس شکل میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد اور صحابہ کے زمانے میں تھا اور یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ اس دین کے بنیادی ماخذ صرف قرآن و حدیث ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کے معنی یہ ہیں کہ جہاں ان دونوں کویکساں درجے میں سرچشمہ رشد و ہدایت مانا جائے وہیں فلسفہ، علم کلام اور تصوف نیز فقہاء
Flag Counter