Maktaba Wahhabi

446 - 531
امام یحییٰ بن عبد اللہ بن بکیر رحمہ اللہ [1] امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے مایۂ ناز اساتذہ میں سے ایک تھے، یہ مؤطا کے مشہور راوی یحییٰ لیثی کے علاوہ ہیں ، امام بخاری نے اپنی عظیم تصنیف، صحیح بخاری میں ان سے متعدد حدیثیں روایت کی ہیں اور پہلی کتاب: کتاب بدء الوحی کے تحت جو تیسری حدیث لائے ہیں وہ انہیں یحییٰ سے روایت کی ہے اور یحییٰ نے اس کی روایت مصر کے عالی مقام محدث اور فقیہ لیث بن سعد سے، انہوں نے عقیل بن خالد بن عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب زہری سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کی ہے۔ یہ سب آسمانِ روایت کے درخشاں ستارے تھے۔ حافظ ابن حجر کے مطابق یحییٰ بن بکیر لیث بن سعد کے راویوں میں سب سے زیادہ ثقہ اور قابل اعتماد تھے۔[2] اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ کے مقرب ترین شاگرد شیخ الاسلام امام عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی رحمہ اللہ [3] جن کی روایت کردہ مؤطا صحیح ترین مؤطا ہے اور جو کوئی ۳۰ برس تک امام مالک رحمہ اللہ کی خدمت سے وابستہ رہے امام بخاری، امام مسلم اور امام ابو داود کے شیوخ میں سے ایک تھے، جن سے ان عالی قدر ائمہ نے اپنی کتابوں میں حدیثیں روایت کی ہیں ۔ میں نے یہ دو مثالیں یہ دکھانے کے لیے دی ہیں کہ حدیث کا سلسلہ بصورت روایت اور بصورت کتابت بھی عمومی طور پر عہد صحابہ سے امام بخاری اور دوسرے ائمہ حدیث تک اور خصوصی طور پر عبد العزیز بن مروان اور پھر ان کے بیٹے اور پانچویں خلیفۂ راشد عمر بن عبد العزیز سے، حدیث کی امہات الکتب کے عالی مقام مصنفین تک اس طرح جڑ جاتا ہے کہ درمیان میں کوئی خلا نہیں ملتا۔ تدوین حدیث کے موضوع پر کام کرنے والے اس طرح کی نہ جانے کتنی مثالیں دے کر منکرین حدیث کی کذب بیانیوں کا پردہ چاک کر سکتے ہیں اور ان کے اس دعوے کے پرخچے اڑا سکتے ہیں کہ ’’تدوین حدیث کا اصل کام خلفائے عباسی کے زمانے میں انجام پایا۔‘‘ دراصل جیسا کہ میں واضح کرتا آ رہا ہوں قرآن و حدیث کی حفاظت کا معیار ہر دور میں یکساں رہا، چاہے یہ زبانی روایت کی صورت میں ہو، یا بذریعہ کتابت اور قرآن کے ہر تبدیلی، ہر تحریف اور ہر ملاوٹ سے پاک رہنے کا سبب یہ نہیں رہا کہ مسلمانوں نے اس کے ساتھ خصوصی اہتمام برتا، جو اہتمام انہوں نے حدیث کے ساتھ نہیں برتا، بلکہ قرآن و حدیث کی حفاظت کا مرحلہ وار اور سنجیدہ جائز ہ یہ بتاتا ہے کہ عہد صحابہ ہی سے مسلمانوں کی وابستگی حدیث سے زیادہ رہی، کیونکہ اس کے بغیر قرآن پر عمل ممکن نہیں تھا۔ اس مسئلہ پر بحث کرتے وقت عام طور پر لوگ قرآن و حدیث میں یہ تفریق کرنے لگ جاتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی وجہ سے دین کی اساس اور بنیاد ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہونے کی وجہ سے حدیث کو یہ درجہ حاصل نہیں ہے، یہ دراصل ایک مغالطہ ہے، کیونکہ دونوں کی ان حیثیتوں میں دو
Flag Counter