Maktaba Wahhabi

448 - 531
کرتے ہیں ، جبکہ آیات احکام کی تفسیر سے متعلق صحیح ترین حدیثوں سے حدیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ ان منکرین حدیث اور حدیث کو ثانوی درجہ دینے والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جن اشعار کو ’’جاہلی عرب شعرا‘‘ کا کلام کہا جاتا ہے اور یہ جو عربی محاورے اور تعبیرات ادبی کتابوں ، یا لغت کی کتابوں میں منقول ہیں ان کے بارے میں یہ یقین کہاں سے حاصل ہوا ہے کہ یہ جاہلی عرب شعراء، یا امر ء القیس ، طرفہ، زھیر اور عمرو بن کلثوم وغیرہ ہی کا کلام ہے، اور یہ عربی محاورے اور تعبیریں قدیم عربوں کی زبانوں سے نکلی ہیں ؟ سبع معلقات، مفضلیات اور اصمعیات وغیرہ میں عرب شعراء سے منسوب جو اشعار درج ہیں اور ادب کی کتابوں میں عرب بلغاء سے منسوب جو خطب ملتے ہیں ان سے ان کے راوی کون لوگ تھے اور ان کی عدالت، صداقت اور امانت کے احوال کن کتابوں میں درج ہیں اور ان کی جرح و تعدیل کن کتابوں میں بیان کی گئی ہے پھر ان اشعار، خطب اور محاوروں وغیرہ کی تدوین کب ہوئی؟ اور کیاان جاہلی شعراء کی زبانوں سے نکلنے والے اشعار، ان عرب بلغاء اور خطیبوں کے خطبات اور محاورے اور ان قدیم آسمانی صحیفوں کی جن کی زبانیں بھی موجود نہیں اسی طرح حفاظت ہوئی ہے اور ان کو سننے والوں نے اسی شوق و جذبے سے ان کو سن کر ان کو یاد کیا اور دوسروں تک پہنچایا جس شوق وجذبے سے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے حدیثیں سن کر ان کو اپنے سینوں میں محفوظ کیا اور پھر ان کو سیکڑوں نہیں ہزاروں تک پہنچایا! اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے، تو پھر حدیث کے انکار اور کلام عرب، خطب عرب، محاورات عرب اور قدیم آسمانی صحیفوں کے قبول عام میں یہ دوہرا معیار کیوں ؟ قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین۔
Flag Counter