Maktaba Wahhabi

457 - 531
میں نے ابھی اصلاحی صاحب کی عبارت میں ’’بھی ‘‘ کے اضافے سے متعلق جو بات کہنی چاہی ہے اس کی تفصیل یہ ہے : محدثین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کے لیے حدیث یا سنت ہی کے الفاظ بولتے رہے ہیں ، لیکن بعض محدثین اور فقہاء نے اس کے لیے ’’خبر‘‘ اور ’’اثر‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں حدیث ، سنت، خبر اور اثر مترادف الفاظ ہیں یا ان میں سے ہرایک سے روایات کی خاص قسم مراد ہے ؟ اس کی وضاحت اس وقت میرا موضوع نہیں ہے ، سلسلہ بحث کی مناسبت سے عرض ہے کہ : عربی لغت میں خبر دو معنوں میں مستعمل ہے : ۱:…ما ینقل و یحدث بہ قولا او کتابۃ جو بات اور واقعہ زبانی یا تحریری طور پر نقل کیا جائے یا بیان کیا جائے۔ ۲:…قول یحتمل الصدق والکذب لذاتہ ایسا قول جو بذات خود صدق اور کذب کا امکان رکھتا ہو۔ خبر کے یہ دونوں معنی عربی زبان کی نہایت مستند لغت ’’المعجم الوسیط‘‘ میں بیان کئے گئے ہیں جس کو مصر کی اکیڈمی برائے عربی زبان کے ماہرین زبان اور ادباء نے قدیم عربی لغات کو سامنے رکھ کر تیار کیا ہے (مادہ خ ، ب ، ر) ’’خبر کا پہلا معنی کسی قول یا واقعہ کو نقل کرنے اور بیان کرنے کے عمل سے عبارت ہے ، اور دوسرا معنی کسی نقل کیے جانے والے اور بیان کیے جانے والے قول کے حکم سے متعلق ہے، جن محدثین نے حدیث کو خبر کہا ہے تو پہلے معنی کے اعتبار سے کہا ہے، کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر نقل اور بیان کی جاتی تھی، دوسرے معنی کے اعتبار سے حدیث کو نہ کسی نے خبر کہا ہے اور نہ کہہ سکتا تھا، اس لیے کہ جو صحابی یا صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کوئی بات سنتے تھے، یا جو عمل کرتے ہوئے آپ کو دیکھتے تھے ، پھر دوسرے ان لوگوں کو نقل کرتے تھے جو اس وقت وہاں موجود نہیں ہوتے تھے، تو وہ ارشاد یا عمل صحابہ کے پہلے گروہ کے لیے ’’عین الیقین‘‘ کا درجہ رکھتا تھا ، کیونکہ اس نے اس کو اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا تھا اور سمع و بصر یقینی ذرائع علم ہیں اور جن صحابہ کو اس ارشاد یا عمل کی خبر پہلے صحابہ سے ملتی تھی ان کے لیے وہ خبر’’علم الیقین ‘‘ کا درجہ رکھتی تھی اس لیے کہ عدالت ، امانت اور صدق گوئی کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام نہایت اعلیٰ اور قابل اعتماد مقام پر فائز تھے ، اسی وجہ سے واقعہ کے عینی شاہدین اور بالواسطہ اس کا علم حاصل کرنے والے دونوں یہ کہتے تھے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اور یہ فرمایا ہے اور یہ عمل انجام دیا ہے۔ یاد رہے کہ حدیث کے راوی تمام صحابہ کرام نے احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے براہ راست نہیں سنی تھیں ، بلکہ کچھ نے براہِ راست اور کچھ نے بالواسطہ سنی تھیں ۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :ہم جو حدیثیں تم سے بیان کرتے ہیں وہ سب کی سب ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کی تکذیب نہیں کرتے تھے۔[1] حدیث کی طرح قرآن بھی تمام صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے براہِ راست نہیں سنتے تھے ، بلکہ
Flag Counter