Maktaba Wahhabi

470 - 531
شکل میں کوئی کفارہ نہیں ہے اور ایسا کرنے والا سنت کا مخالف نہیں گردانا جائے گا ، کیونکہ متعدد احادیث میں آیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان میں تقدیم و تاخیر کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :((لا حرج لا حرج)) کوئی حرج نہیں ، کوئی حرج نہیں ۔[1] ان احادیث سے اصلاحی صاحب نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے : ’’ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ سب کا فعل سنت کے درائرہ کے اندر ہی رہا ہو گا ، مغز و روح کے اہتمام کے ساتھ اگر فعل کی ظاہری شکل و صورت میں کچھ اختلاف ہو جائے تو اس سے ’’فعل‘‘ سنت کے دائرہ سے خارج نہیں ہوتا ‘‘[2] اس قول پر تبصرہ یہ ہے ’’مذکورہ اعمال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب کی خلاف ورزی سنت یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف تو ضرور تھی مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نکیر نہ کرکے اس کو جائز قرار دے دیا ، لیکن اس سے یہ قاعدہ بنا نا درست نہیں ہے کہ ’’مغز و روح کے اہتمام کے ساتھ اگر فعل کی ظاہری شکل و صورت میں کچھ اختلاف ہو جائے تو اس سے فعل سنت کے دائرہ سے خارج نہیں ہو جاتا‘‘ کیونکہ یہ حکم ایک خاص عبادت کے کچھ خاص اعمال سے متعلق تھا جو دوسری عبادتوں کے اعمال کے لیے عام نہیں ہے ۔ ۲۔ یوم النحر کے مذکورہ بالا اعمال کی مثال دے کر اصلاحی صاحب نے عبادات میں اختلافات کی صحت پر جو استدلال کیا ہے وہ درست نہیں ہے فرماتے ہیں : ’’تشہد سے متعلق جو روایات ہیں وہ سب فقیہہ صحابہ سے مروی ہیں ، اگرچہ ان میں سے ہر ایک کے الفاظ ایک دوسرے سے کچھ مختلف ہیں ، لیکن مغز و روح سب میں ایک ہی ہے ، اب فرض کیجئے کہ ایک شخص ان میں سے اس تشہد کو اختیار کرتا ہے جو حضرت عمر یا حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے اس تشہد کو اختیار نہیں کرتا جو حضرت عائشہ یا حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے تو کیا یہ کہنا جائز ہو گا کہ اس کا یہ فعل سنت کے خلاف ہے ؟ علمی بنیاد پر ان میں راجح اور مرجوح کی بحث تو ہو سکتی ہے ، لیکن ان میں سے کسی کو سنت سے کیسے خارج کیا جا سکتا ہے ‘‘ موصوف کے اس ارشاد پر ہمارا تبصرہ یہ ہے : ۱۔ تشہد کے جو متعدد صیغے مختلف صحابہ کرام سے مروی ہیں وہ سب سنت میں اس وجہ سے داخل ہیں کہ یہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے صیغے ہیں اس وجہ سے سنت نہیں ہیں کہ ان کے راوی فقیہہ صحابہ ہیں یا ان میں مغز و روح کی رعایت کی گئی ہے ، کیونکہ اگر حدیث کے حجت ہونے کی شرط یہ قرار دے دی جائے کہ وہ فقیہہ صحابی سے مروی ہے تو پھر حدیث کے بہت بڑے ذخیرے کو یہ کہہ کر رد کر دیا جا سکتا ہے کہ وہ غیر فقیہہ صحابہ سے مروی ہے
Flag Counter