Maktaba Wahhabi

475 - 531
چیز کو قرآن مجید کے ترازو میں تولنا اور اس کسوٹی پر پرکھنا ہو گا یہ ایک عام کلیہ ہے ، یہاں تک کہ اگر کسی حدیث کے باب میں بھی تردد ہو گا تو وہ بھی اسی ترازو میں تولی جائے گی‘‘[1]تو عرض ہے کہ قرآن کو میزان ، مہیمن اور فرقان وغیرہ عام طور پر سابقہ آسمانی کتابوں کے حق میں کہا گیا ہے ، کیونکہ وہ بیشتر محرف ہو چکی تھیں ،رہی حدیث جس سے میری مراد صحیح حدیث ہے تو وہ قرآن کی شرح اور تفسیر ہے جو حامل قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی ہے ، لہٰذا کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی ، جس طرح قرآن کا کوئی حصہ دوسرے کسی حصے کے خلاف نہیں ہو سکتا، البتہ حدیث قرآن پر اضافہ ہو سکتی ہے اور ہر کتاب کی شرح اس کتاب سے زائد ہوتی ہے اسی طرح حدیث میں ایسی باتیں بھی ہو سکتی ہیں جو قرآن میں نہ بیان ہوئی ہوں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے شارح ہونے کے علاوہ ’’شارع‘‘ بھی تھے ۔ اور آپ اپنی ہر حیثیت میں مطاع تھے ۔ اصلاحی صاحب نے یہاں یحییٰ بن ابی کثیر کے قول کو ایک بار پھر دہرایا ہے جس کا مدعا واضح کیا جا چکا ہے ۔ اصلاحی صاحب نے آگے لکھا ہے کہ ’’یہ بات عقلا اور شرعا بالکل محال ہے کہ رسول کی کوئی بات اللہ تعالیٰ کی بات کے خلاف ہو ‘‘ برحق ہے جس کی وضاحت کی جا چکی ہے ۔ لیکن آپ کا یہ ارشاد : چنانچہ اس اصول پر اہل فن کا اتفاق رہا ہے کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو گی وہ ’’منکر‘‘ ہے ،، غلط بیانی ہے ۔ اور اس دعویٰ کی دلیل میں آپ نے امام احمد کا جو قول نقل کیا ہے اس میں اشارۃً بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے ، اس میں صرف اتنا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس قول کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے کہ ’’سنت کتاب کے حق میں فیصلہ کن ہے ‘‘ تو انہوں نے فرمایا : میں یہ کہنے کی جرأت تو نہیں کر سکتا ، البتہ سنت کتاب کی تفسیر کرتی ہے ، اس کا تعارف کراتی ہے اور اس کو بیان کرتی ہے ۔ دراصل امام احمد اپنی تعبیرات میں نہایت ہلکے، نرم اور آسان الفاظ استعمال کرتے تھے اور ایسی تعبیرات استعمال کرنے سے گریز کرتے تھے جن کا غلط مطلب لیا جا سکے ۔ لیکن انہوں نے امام یحییٰ بن ابی کثیر کے قول پر کوئی اعتراض کرنے کے بجائے یہ بھی فرما دیا کہ اس طرح کا خیال مکحول اور زہری کا بھی تھا شاہ ولی اللہ نے بھی یہی تعبیر اختیار کی ہے جب کہ وہ الفاظ کے استعمال میں بڑے محتاط تھے، فرماتے ہیں : (( و إذا کان القرآن محتملا لوجوہ، فالسنۃ قاضیۃ علیہ۔)) [2] پہلی کسوٹی پر تبصرہ کرنے کے بجائے اس کے وضاحتی بیان پر تبصرہ طویل ہو گیا اس طرح میں اصل موضوع سے دور ہو گیا ، قارئین سے معذرت خواہ ہوں اور اصل موضوع کی طرف واپس آتا ہوں ۔ اصلاحی صاحب نے جو یہ فرمایا ہے کہ قرآن اور حدیث میں اصل یا فرع یا متن اور شرح کا تعلق ہے ’’ درست ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ قرآن پاک میں دین و شریعت کے جو اصول بیان ہوئے ہیں ان کی حیثیت بنیاد کی ہے جن کی حدیث شرح کرتی ہے ۔‘‘
Flag Counter