Maktaba Wahhabi

489 - 531
و رحمت اور اس کی کرم فرمائی اور احسان کا نتیجہ ہے اس بات کو الصادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح الفاظ میں بیان فرما دیا ہے : ((لن ینجی احدًا منکم عملہ قالوا:ولا انت یا رسول اللّٰہ؟ قال: ولا انا ، الا ان یتغمدنی اللّٰہ برحمۃ منہ و فضل )) [1] ’’تم میں سے کسی کو اس کا عمل ہرگز نجات نہیں دے سکتا‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول کیا آپ کو بھی نہیں ؟ فرمایا: مجھے بھی نہیں ، الا یہ کہ اللہ اپنی رحمت اور فضل سے مجھے ڈھانپ لے ۔‘‘ حدیث میں حرف ’’لو ‘‘ استعمال ہوا ہے جو صرف حرف امتناع ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا ، لیکن اگروہ ایسا کرے تو ظالم نہیں عادل ہو گا ، اس مضمون کی حامل آیتوں سے قرآن پاک بھرا پڑا ہے : ﴿وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ ، یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ (آل عمران:۱۲۹) ’’اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمینوں میں ہے وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے او راللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ غزوہ احدمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض مشرکین مکہ کے ہاتھوں زخمی ہو گئے تو آپ نے فرمایا: ((کیف یفلح قوم شجوا نبیھم)) [2]’’وہ قوم کیونکر فلاح پاسکتی ہے جس نے اپنے نبی کو زخمی کر دیا۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا: ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ اَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَاِنَّہُمْ ظٰلِمُوْن﴾ (آل عمران:۱۲۸) ’’اس معاملے کی کوئی بھی چیز تیرے اختیار میں نہیں ہے یا وہ ان کو معاف کر دے ، یا انہیں عذاب دے ، کیونکہ درحقیقت وہ ظالم ہیں ۔‘‘ پھر فرمایا کہ آسمان و زمین کا مالک تنہا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور تنہا وہی یہ اختیار رکھتا ہے کہ جسے چاہے معاف کر دے اور جسے چاہے عذاب دے ، اور آیت کے آخر میں اپنی دو صفتیں غفور و رحیم کا ذکر کرکے یہ یقین دلا دیا کہ گناہوں سے توبہ کرنے والوں کو وہ اپنی مغفرت اور رحمت سے ڈھانپ لے گا اور ان کو عذاب نہیں دے گا ۔
Flag Counter