Maktaba Wahhabi

504 - 531
ہے ، لہٰذا جب آپ نے ان کو یہ خبر دی کہ آج رات مجھے مکہ سے بیت المقدس لے جایا گیا تو عقل کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس کی تصدیق کرتے ، کیونکہ اولا تو ان کو آپ کے جھوٹے ہونے کا کوئی ایک بھی تجربہ نہیں تھا ، ثانیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ : آج رات میں مکہ سے بیت المقدس گیا اور واپس آگیا، بلکہ یہ فرمایا تھا کہ ’’آج کی رات مجھے مکہ سے بیت المقدس لے جایا گیا، گویا آپ خود نہیں گئے تھے۔ بلکہ آپ کو لے جا یا گیا تھا ، یہ خبر سن کر اگر وہ یہ پوچھتے کہ تم کو کون اس طویل سفر پر لے گیا اور واپس چھوڑگیا ۔تو وہ حق بجانب ہوتے ، ان کو یہ بات معلوم تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیبیات کی جب کوئی خبر دیتے ہیں یا کسی آیت یا معجزے کا اظہار فرماتے ہیں تو اپنی نسبت سے نہیں ، بلکہ اللہ کی نسبت سے اور اللہ کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی توحید ربوبیت کے معترف تھے ،اس طرح ابوجہل اور دوسرے مشرکین نے اسراء کے واقعہ کی تکذیب کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب نہیں کی تھی ، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ان آیات کا انکار کیا تھا جو اللہ تعالیٰ کی مطلق قدرت اور اس کے رسول کی صدق بیانی پر دلالت کرتی ہیں : ﴿قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَ لٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ، وَ لَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْاعَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰی اَتٰہُمْ نَصْرُنَا وَ لَا مُبَدِّلَ لَکَلِمٰتِ اللّٰہِ﴾ (الانعام :۳۳،۳۴) ’’یقینا ہم جانتے ہیں کہ لوگ جو بات کہتے ہیں وہ تمہیں رنج دیتی ہے ۔ تو درحقیقت یہ تمہاری تکذیب نہیں کرتے ہیں ، بلکہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے جو رسول گزرے ہیں وہ بھی جھٹلائے گئے تو انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے اور ایذا دئیے جانے پر صبر کیا ، یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی اور اللہ کی باتوں کو بدلنے والا کوئی نہیں ہے ۔‘‘ مشرکین مکہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا ماننے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب ہر قل نے سید قریش ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے ان کے اسلام لانے سے پہلے قریش کی ایک جماعت کی موجودگی میں پوچھا تھا : (فھل کنتم تتھمونہ بالکذب قبل ان یقول ما قال ؟) ’’تو کیا تم لوگ اس کے اپنی دعوت پیش کرنے سے پہلے اس پر کذب بیانی کا الزام لگاتے تھے ؟‘‘ ابو سفیان نے اس کا جواب نفی میں دیا تھا ، اور ہرقل نے اس پر جو تبصرہ کیا تھا وہ عقل اور شرع دونوں کی میزان میں بڑا وزنی ہے ، اگرچہ وہ ایمان نہیں لایا اس نے کہا: ((فقد اعرف انہ لم یکن لیذرالکذب علی الناس ویکذب علی اللّٰہ ۔))[1] ’’درحقیقت مجھے یہ معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر دروغ گوئی سے باز رہے اور اللہ پر جھوٹ بولے ۔‘‘
Flag Counter