Maktaba Wahhabi

508 - 531
مائۃ و خمسین یوماً، وأن اللّٰہ تعالیٰ وجہ السفینۃ الی مکۃ، فدارت بالبیت اربعین یوما، ثم وجھھا اللّٰہ تعالیٰ الی الجودی) [1] ’’نوح کے ساتھ کشتی میں ۸۰ مرد اپنے اہل و عیال کے ساتھ سوار تھے اور کشتی میں وہ ۱۵۰ دن تک سوار رہے ، اللہ تعالیٰ نے کشتی کا رخ مکہ کی طرف پھیر دیا جہاں اس نے ۴۰ روز تک بیت اللہ کا طواف کیا ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا رخ جودی کی طرف پھیر دیا۔ ‘‘ یہ روایت شرع اور عقل دونوں کے خلاف ہے اور اس کا لفظ لفظ اس کے من گھڑت ہونے پر دلالت کرتا ہے ،کشتی نہ ذی عقل ہے اور نہ ذی روح کہ بیت اللہ کا طواف کرے ، حافظ ابن کثیر نے اس کی غرابت اور نکارت بیان کرنے کے لیے اس کو نقل کیا ہے ۔ ۲۔(ان سفینۃ نوح طافت بالبیت سبعا و صلت خلف المقام رکعتین) [2] ’’نوح کی کشتی نے بیت اللہ کا سات بار طواف کیا اور مقام کے پیچھے دو رکعتیں ادا کیں ۔‘‘ یہ روایت اپنے جھوٹے راوی ، عبدالرحمن بن زیدبن اسلم کی وجہ سے سندا بھی جھوٹ ہے متن کے اعتبار سے بھی اس کا مقام کے پیچھے دو رکعتیں ادا کرنا عجیب تر، کیونکہ نوح علیہ السلام کے زمانے میں نہ کعبہ کی عمارت تھی اور نہ مقام: مقام سے مراد مقام ابراہیم ہے ، واضح رہے کہ مقام کا اطلاق دو جگہوں پر ہوتا ہے: ابراہیم علیہ السلام کی عبادت کی جگہ اور مقام اس اعتبار سے تمام مشاعر حج مقام ابراہیم ہیں ۔ ۲۔ وہ خاص پتھر جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلَّی﴾ (سورۃ البقرۃ:۱۲۵) ’’اور تم لوگ ابراہیم کی جائے قیام کو نماز کی جگہ بناؤ۔‘‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ نوح علیہ السلام کے زمانے میں مقام کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ ۳۔ قصص الانبیاء کے موضوع پر عربی، فارسی اور اردو میں جو کتابیں ہیں ان میں ایک افسانوی انسان کا ذکر ملتا ہے جس کا نام عوج بن عنق بتایا گیا ہے ، لیکن صحیح تلفط عوج بن عوق ہے ، اس کی لمبائی ۳۳۳۳ذراع، یعنی ۲۱۳۳ میٹر تھی اور وہ سمندر کی گہرائی سے مچھلی پکڑ کر قرص آفتاب میں بھون لیا کرتا تھا۔ [3] اس روایت کے جھوٹ ہونے اور عقل و نقل کے منافی ہونے کی بات محتاج دلیل نہیں ہے ۔
Flag Counter