Maktaba Wahhabi

527 - 531
واضح ہوا کہ متکلمین کے نزدیک صرف توحید ربوبیت کا اعتبار ہے اور چونکہ اس توحید کے باب میں ان کا ماخذ معلومات ارسطو اور دوسرے فلاسفہ ہیں اس لیے متکلمین اور ان کے ائمہ ، رازی ، جوینی، باقلانی ، شہرستانی، کوثری ، اور بوطی وغیرہ ’’فہم توحید‘‘ میں مشرکین مکہ سے بدتر ہیں ۔ میں پہلے متکلمین کی عمومی توحید بیان کروں گا، پھر ان کے بعض اکابر کی توحید بیان کروں گا ۔ میں نے اوپر قرآنی آیات کی روشنی میں اور زبان کے اعتبار سے یہ واضح کیا ہے کہ الٰہ کے معنی معبود کے ہیں اس مفہوم کو سامنے رکھیے اور متکلمین کے نزدیک ’’لاالہ الااللہ‘‘ کے معنی پر غور کیجئے ، کہتے ہیں : لا الہ الا اللہ کا مطلب ہے : ’’لا قادر علی الاختراع الا اللّٰه ‘‘ یعنی : ’’ایجاد پر اللہ کے سوا کوئی قادر نہیں ‘‘ اس مفہوم یا دعوی کے اعتبار سے اہل کلام کی توحید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کرتے ہوئے یہ کہا جائے یا عقیدہ رکھا جائے کہ : اللہ اپنی ذات میں ایک ہے جس کا کوئی حصہ دار نہیں ، اپنے افعال میں ایک ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اپنی صفات میں ایک ہے جس کے مانند کوئی نہیں ۔[1] اگر توحید کے یہی معنی ہوتے تو قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ توحید کو رد نہ کرتے ، بلکہ فورا آپ کی دعوت قبول کر لیتے ، اس پر ایمان لے آتے اور اس کی تصدیق کر دیتے ، کیونکہ اولا: تو یہ توحید ربوبیت ہے اور قریش توحید ربوبیت کے منکر نہیں تھے ۔جس کے بیان سے قرآن پاک بھرا پڑا ہے ۔ ثانیا : قریش جس توحید ربوبیت پر ایمان رکھتے تھے وہ متکلمین کی اس توحید سے زیادہ جامع اور دقیق ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن پاک میں ان کی اس توحید کی کہیں نکیر نہیں کی گئی ہے ، بلکہ اس کے برعکس ان کی اس توحید کو دلیل بنا کر ان کو توحید الوہیت کی دعوت دی گئی ہے ، یعنی ان سے فرمایا گیا ہے کہ جب تم صرف اللہ کو خالق مانتے ہو تو اس کا تم سے یہ تقاضا ہے کہ تم صرف اسی کو اپنا معبود بھی مانو، اس لیے کہ جو خالق ہے صرف وہی مستحق عبادت ہے اور جو خالق نہیں ہے وہ معبود بنائے جانے کا سزاوار ہرگز نہیں ہے ۔ ثالثا : قریش کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں ہے اور ’’لاخالق‘‘ ’’لا قادر علی الاختراع‘‘سے زیادہ بلیغ ہے ،کیونکہ کسی کے قادر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس فعل پر وہ قادر ہے اس کو اس نے انجام دیا ہے ،جبکہ اللہ کے خالق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے فعل تخلیق کو اپنی قدرت سے انجام دے دیا ہے اس طرح مشرکین توحید ربوبیت کو یا اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کو ارسطو کے پیروؤں ، متکلمین سے زیادہ بہتر سمجھتے تھے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ واضح کرتا چلوں کہ متکلمین اور ان کے پیروکا رصوفیا وغیرہ جب توحید کی بات کرتے ہیں تو اس سے وہ توحید ربوبیت ہی مراد لیتے ہیں ، رہی توحید الوہیت جس کی دعوت اور اثبات کے لیے تمام انبیاء اور رسولوں کی بعثت ہوئی اس کا ان کے یہاں کوئی ذکر نہیں ملتا، بلکہ وہ اس کا کوئی تصور ہی نہیں رکھتے ، اگر شاذ و نادر کسی صوفی نے اپنی
Flag Counter