Maktaba Wahhabi

71 - 531
امام مالک کا قول ہے: سلیمان بن یسار سعید بن مسیب کے بعد علماء میں شمار ہوتے تھے اور بیشتر مسائل میں ان سے اتفاق کرتے تھے، اور ان کی مخالفت کی جرأت نہیں کرتے۔[1] اوپر مدینہ منورہ کے ساتوں فقہاء کا مختصر تعارف اس لیے کرایا گیا ہے تاکہ یہ دکھایا جاسکے کہ صحابہ کرام اور تابعین کے تمام گروپوں میں علم حدیث، بلکہ علم شریعت کے اخذ و عطاء، تعلیم و تعلّم اور تحصیل و اداء کا نہایت گہرا اور وسیع تعلق تھا جو ۷۰، ۸۰ سال پر پھیلا ہوا تھا۔ مدینہ کے ان مشاہیر علماء اور محدثین کو فقہاء کا لقب اس معنی میں نہیں دیا گیا تھا جس معنی میں فقہ کی اصطلاح بعد میں استعمال کی گئی یعنی قیاس و رائے اور اجتہاد سے حاصل ہونے والا علم، بلکہ ان کو یہ لقب اس معنی میں دیا گیا تھا جس معنی میں یہ لفظ قرآن پاک میں آیا ہے، یعنی فہم دین کی کوشش، ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ، ﴾ (التوبہ:۱۲۲) ’’کچھ لازم نہ تھا کہ سارے اہل ایمان نکل جاتے، پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ہر گروہ سے کچھ لوگ اس غرض سے نکلتے کہ دین میں سمجھ بوجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کے لوگوں میں واپس جاتے تو ان کو خبردار کرتے تاکہ وہ بری باتوں سے پرہیز کریں ۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں جس چیز کو دین میں ’’سمجھ بوجھ‘‘ یا تفقہ فی الدین سے تعبیر کیا گیا ہے وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی کا تو علم ہے جس پر صحابہ کرام، ان کے تابعین اور ان کے بعد آنے والے محدثین عمل پیرا رہے۔ اس طرح ’’تفقہ فی الدین‘‘ کی صفت سے حقیقی معنوں میں محدثین ہی موصوف تھے، نہ کہ وہ جنھوں نے کتاب و سنت کے بجائے متکلمانہ اور فلسفیانہ مجادلوں کی روش اختیار کی۔ فقہائے سبعہ کے اساتذہ اور شاگردوں کی فہرست پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے ہی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو نسل مسند علم و معرفت اور رشد و ہدایت چھوڑ کر جانے والی تھی اس نے اس مسند پر بیٹھنے کے لیے اپنے جانشینوں کی خوب اچھی طرح تربیت کردی تھی اور جس علم و معرفت کی روشنی سے اس کا سینہ منور تھا وہ مکمل طور پر اپنے جانشینوں کے سپرد کردیا تھا اور ان کو اس علم کا حقدار بن جانے اور پھر ان کے بعد آنے والوں کو منتقل کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال ہوجانے کے بعد یہ مسند چھوڑا تھا۔ صحابی کی تعریف کے ضمن میں یہ بات آچکی ہے کہ سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی ابوطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ تھے جنھوں نے ۱۱۰ھ مطابق ۷۲۸ء میں وفات پائی۔ اور ان سے پہلے ۹۳ھ مطابق ۷۱۱ء میں انس بن
Flag Counter