Maktaba Wahhabi

115 - 531
بن محمد بستی معروف بخطابی نے یہ بتائی ہے کہ اس تعداد سے تبرک کے طور پر ایسا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ شریعت کے بہت سے امور اور تخلیق کی اصل سے اس کا ایک تعلق ہے‘‘ ان کے اس قول میں وزن ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن پاک کی اہم ترین سورت الفاتحہ کی آیتوں کی تعداد سات ہے، یہاں تک کہ سورۃ الحجر کی آیت نمبر ۸۷ کی بنیاد پر اس کا ایک نام السبع المثانی بھی ہے، آسمانوں کی تعداد سات ہے، اصحاب کہف کی تعداد سات ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اللہ کی راہ میں انفاق کو ایسے دانے سے تشبیہ دی ہے جس سے سات بالیں اگتی ہیں وغیرہ اور احادیث میں وارد دعاؤں میں بھی اس تعداد کا اعتبار کیا گیا ہے، چنانچہ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ انھوں نے اسلام لانے کے بعد اپنے جسم میں کسی جگہ درد محسوس کرنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا: ((ضع یدک علی الذی تألم من جسدک وقل: بسم اللّٰه ثلاثًا وقل سبع مرات: أعوذ باللّٰه وقدرتہ من شر ما أجد وأحاذر۔)) ’’تم اپنا ہاتھ جسم کے اس حصے پر رکھ لو جہاں درد محسوس کرتے ہو اور تین بار ’’بسم للّٰه ‘‘ کہو اور سات بار کہو: میں اللہ اور اس کی قدرت کی اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ۔ جو میں پارہا ہوں اور جس سے خوف محسوس کرتا ہوں ۔‘‘ کہتے ہیں : میں نے اس پر عمل کیا اللہ نے میرا درد دور کردیا، اس وقت سے میں اپنے اہل خانہ اور دوسرے لوگوں کو ایسا کرنے کا حکم دیتا ہوں ۔‘‘[1] (۲)… حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ طبرانی کی روایت میں ’’سبع قرب‘‘ کے بعد ’’من آبارشتی‘‘ ’’مختلف کنوؤں سے‘‘ کا اضافہ ہے، اور یہ علاج کی غرض سے تھا، جیسا کہ ایک دوسری صحیح روایت میں آیا ہے: ’’لعلی أستریح فأعھد‘‘ شاید میں آرام محسوس کروں اور وصیت کرسکوں ۔[2] (۳)… اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تپ زدہ جسم پر مختلف کنوؤں کے پانی سے بھرے مشکیزوں سے پانی ڈالنے کا جو حکم دیا تھا، نہ وہ عام امراض کے لیے تھا اور نہ عام مریضوں کے لیے، بلکہ اس بخار کی شدت کم کرنے کی غرض سے تھا جس میں آپ مبتلا تھے، اور اگر کوئی ان تمام حدیثوں کو ایک ساتھ پڑھے جن میں آپ کے آخری مرض کی کیفیتیں بیان ہوئی ہیں اور جن میں سے بیشتر کی راوی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ، تو وہ کسی حد تک یہ محسوس کرے گا کہ آپ کی یہ بیماری ناقابل بیان تھی، قابل تعریف ہیں ام المومنین کہ آپ کے کرب کو دیکھ اور محسوس کر رہی تھیں ، مگر نور نبوت سے اس طرح فیض یاب ہوچکی تھیں کہ صبر کا دامن ایک لمحہ کے لیے بھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
Flag Counter