Maktaba Wahhabi

116 - 531
بعض شدید قسم کے بخار میں ٹھنڈے پانی سے نہانا قدیم طبی طریقہ ہے، عوامی خرافات نہیں جدید طب کی رو سے بھی شدید بخار کی حالت میں برف کے پانی میں تر کرکے کپڑا یا روئی مریض کی پیشانی پر رکھی جاتی ہے اور بار بار ایسا کرنے سے بخار اتر جاتا ہے۔ امام ابن القیم اپنی کتاب زاد المعاد میں لکھتے ہیں : ’’حکیم جالینوس نے اپنی کتاب ’’حصول شفاء کا طریقہ‘‘ کے دسویں مقالے میں لکھا ہے کہ اگر فربہ جسم کا مالک کوئی انسان گرم موسم میں شدید بخار میں مبتلا ہو اور اس کے پیٹ میں کوئی ورم نہ ہو، تو ٹھنڈے پانی سے نہانا، یا ٹھنڈے پانی میں تیرنا اس کے لیے مفید ہے۔‘‘ (ج:۴، ص : ۲۵) دراصل پانی جب تک کنویں ، چشمہ یا دریا میں رہتا ہے اس کی خاصیت اور ماہیت نہیں بدلتی اور جن اوصاف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کو بنایا ہے وہ باقی رہتے ہیں ، لیکن کنویں یا چشمے یا دریا سے نکال لینے کے کچھ ہی مدت بعد اس کے مزاج میں تبدیلی شروع ہوجاتی ہے، لیکن اگر پانی کنویں یا دوسرے سرچشموں سے نکال لینے کے بعد کسی برتن یا مشکیزے وغیرہ میں رکھ کر فوراً اس برتن یا مشکیزے کا منہ بند کردیا جائے تو جہاں اس کی خاصیت اور ماہیت کی مدتِ صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے وہیں وہ خارجی اثرات اور گرد و غبار سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے آس پاس کنویں نہیں تھے، بلکہ کافی مسافت پر تھے اور چونکہ حدیث کے مطابق سات کنوؤں کا پانی مطلوب تھا اور مدینہ میں سات کنویں ایک دوسرے سے کافی فاصلوں پر رہے ہوں گے، اس لیے ان سے پانی مشکیزوں میں بھر کر آپ کے گھر تک لانے میں کچھ مدت درکار رہی ہوگی، لہٰذا مشکیزوں کا منہ بند رکھنے کی تاکید کی حکمت ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے، یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ایک کنویں کا پانی اپنے مزاج، اجزائے ترکیبی اور مزے میں دوسرے کنویں کے پانی سے مختلف ہوتا ہے، اگرچہ دونوں آس پاس ہی کیوں نہ ہوں ۔ اور یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ جسم پر ڈالا جانے والا پانی جسم کو ٹھنڈک اور تراوٹ پہنچانے کے علاوہ جلد اور اندرون جلد طبی اثرات بھی ڈالتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حدیث میں مذکور مختلف کنووں سے حاصل کردہ ایسے سات مشکیزوں کے پانی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہلانا، جن کا منہ بھرتے ہی بند کردیا گیا ہو، عوامی خرافات کے قبیل سے ہے، تو پھربخار اتارنے کے لیے اصلاحی صاحب کے خیال میں اس وقت اور کون سا علمی یا طبی طریقہ ہوسکتا تھا؟ کیونکہ بخار اتارنے کے لیے کچھ تو کرنا تھا۔ درحقیقت صاحب تدبر قرآن اور ان کے مکتبہ فکر سے وابستہ لوگوں کے نزدیک احادیث کا سارا ذخیرہ جھوٹ اور محدثین نام کی ایک جھوٹی اور علم و دیانت سے عاری جماعت کا گھڑا ہوا ہے، سوائے ان چند حدیثوں کے جو ان کے خود ساختہ اصول درایت پر پوری اترتی ہوں یا جو ان کی قرآنی تاویلات سے ہم آہنگ ہوں ۔
Flag Counter