Maktaba Wahhabi

162 - 531
۲۔ مولانا محمود الحسن کا ترجمہ: ’’اور سورج چلا جاتا ہے اپنے ٹھہرے ہوئے رستے پر‘‘ ۳۔ مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ: ’’اور سورج اپنے مقررہ رستے پر چلتا رہتا ہے۔‘‘ اس کے بعد تحریر فرمایا تھا: تقریباً ایک ہی بات چاروں علمائے کرام کہہ رہے ہیں ، البتہ مولانا اصلاحی کا ترجمہ اردوئے معلی کا نمونہ ہے۔ میں ڈاکٹر برنی کے اس ارشاد پر دو مختصر باتیں عرض کر کے اصل موضوع پر آ جاؤں گا: ۱۔ قرآن پاک کا ترجمہ مترجم کی بات یا کلام نہیں ہوتا۔ ۲۔ قرآن پاک کے ترجمے کی صحت اس کے اردوئے معلی ہونے پر مقدم ہے۔ اب عرض ہے کہ جہاں تک ’’تجری‘‘ کا ترجمہ دوڑنا کے بجائے ’’چلتے رہنا‘‘ ہے تو یہ فعل جری یجری کے مزاج کے خلاف ہے، کیونکہ جری یجری ایسی حرکت اور ایسی چال کے لیے بولا جاتا ہے جس میں تیزی ہو، مذکورہ تینوں بزرگوں نے اپنے مقام و مرتبے کی بلندی کے باوجود جو ترجمہ کیا ہے وہ مشی یمشی کا ترجمہ ہے جری یجری کا نہیں ۔ رہے اصلاحی صاحب تو ان کا ترجمہ ’’گردش کرتا ہے‘‘ اگرچہ تیز رفتاری کے منافی نہیں ہے، لیکن یہ ترجمہ ’’دارید ور‘‘ سے مناسب رکھتا ہے۔ دراصل مجھے جری یجری کے ترجمے پر اتنا اعتراض نہیں ہے، جتنا لفظ مستقر اور اس کے شروع میں آنے والے حرف ’’لام‘‘ کے ترجمہ پر ہے۔ مولانا اصلاحی نے لام کا ترجمہ ’’پر‘‘ اور مستقر کا ترجمہ ’’مدار‘‘ کیا ہے یہ غلط ہونے کے ساتھ ان کے دعویٰ عربی دانی اور الفاظ و حروف کے بارے میں ان کے تحقیقی ذھن سے کسی طرح بھی ہم آہنگ نہیں ہے مزید یہ کہ ایک ہی آیت کے بعد ایک لفظ آ رہا ہے جو ’’مدار‘‘ کا مفہوم دے رہا ہے اور سیاق و سباق سے بھی یہی مفہوم لینے کی تائید ہوتی ہے۔ میری مراد لفظ ’’فلک‘‘ سے ہے جس کا ترجمہ انہوں نے ’’دائرہ‘‘ کیا ہے پوری آیت اور اس کا ترجمہ درج ذیل ہے: ﴿لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَہَا اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُوْنَ ﴾ (یٰس: ۴۰) ’’نہ سورج کی مجال ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت کر سکتی ہے، ہر ایک اپنے خاص دائرے میں گردش کرتا ہے۔‘‘ کیا اس ترجمے کی روشنی میں دونوں آیتوں کا مفہوم ایک نہیں ہو گیا اور کیا: اور سورج اپنے ایک متعین مدار پر گردش کرتا ہے‘‘ اور ’’ہر ایک اپنے خاص دائرے میں گردش کرتا ہے‘‘ ایک ہی بات نہیں ہے، جبکہ ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ
Flag Counter