Maktaba Wahhabi

165 - 531
﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّ وَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ﴾ (الحج: ۱۸) ’’کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ ہی کا سجدہ کرتے ہیں وہ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان۔‘‘ تو کیا اس آیت میں سورج اور چاند اور دوسری چیزوں کے اللہ کو سجدہ کرنے کی جو خبر دی گئی ہے وہ بعینہ وہی سجدہ نہیں ہے جس کی خبر زیر بحث حدیث میں دی گئی ہے؟ پھر منکرین حدیث آیت قرآنی کے سجدے کو حدیث کے سجدے کی طرح عقل سے متعارض کیوں نہیں قرار دے دیتے؟ اس آیت کی تفسیرکرتے ہوئے امین اصلاحی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے: ’’اس کائنات کی ہر چیز اپنی تکوینی حیثیت میں ابراہیمی مزاج رکھتی ہے، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ اور چوپائے سب خدا کے امر و حکم کے تحت مسخر ہیں ، ان میں سے کوئی چیز بھی سرمو خدا کے مقرر کیے ہوئے قوانین سے انحراف نہیں اختیار کرتی…‘‘[1] اس عبارت میں کائنات کی عبودیت، حکم الٰہی کی بجا آوری اور اس کی اطاعت و فرماں برداری کو ابراہیمی مزاج کے مشابہ قرار دیا گیا ہے، تمام انبیاء کے مجموعی مزاج کے مشابہ کیوں نہ قرار دیا گیا، جبکہ اولاً تو جن و انس میں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ مطیع و فرماں بردار اور اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے عابد ہمارے نبی و رسول محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، آپ عبدیت کے اس مقام پر فائز تھے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں ’’عبد‘‘ کا لفظ مطلقاً آیا ہے تو اس سے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات مقدس مراد ہے۔ ثانیاً قرآن پاک میں جہاں کہیں جن و انس کے سوا کائنات کی دوسری اشیاء کی عبودیت کا ذکر آیا ہے تو اس معنی میں کہ یہ چیزیں قانونِ الٰہی کی مطیع ہیں اور اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کے احکام سے بال برابر سرتابی نہیں کرسکتیں ، جبکہ ابراہیم علیہ السلام اپنے ارادۂ و اختیار سے اور برضا ور رغبت اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرماں بردار تھے۔ یہاں قرآن پاک میں متعدد مقامات پر مذکور ملت ابراہیمی کی پیروی کے مسئلہ کو صاف کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے، کیونکہ امین احسن اصلاحی اور ان کے شاگرد رشید جاوید احمد غامدی نے ان قرآنی آیات کو ان کے سیاق و سباق سے نکال کر اور ان کی غلط تاویل کر کے شرع محمدی کے بجائے ملت ابراہیمی کو اصل دین قرار دے ڈالا ہے۔ تو عرض ہے کہ چونکہ مشرکین ابراہیم علیہ السلام ہی کو اپنا جد امجد مانتے تھے اور انہی کے طریقے کی اتباع کے مدعی تھے، اسی طرح یہود و نصاریٰ بھی آپ ہی سے اپنے کو منسوب کرتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مشرکین اور یہود ونصاریٰ کو مخاطب بنا کر بار بار یہ فرمایا ہے کہ وہ نہ تو مشرک تھے اور نہ یہودی و نصرانی، بلکہ خالص موحد مسلمان تھے، پھر تمہاری ان سے کیا نسبت؟
Flag Counter