Maktaba Wahhabi

196 - 531
درخواست ہے کہ وہ دل پر جبر کر کے اس انداز بیان کو برداشت کر لیں ، فرماتے ہیں : ’’ہمارے زمانے میں کچھ بدطینت جو ان منظر عام پر آئے ہیں جو حدیث نبوی کے دفاع کے نام پر ائمہ فقہ پر زبان درازی کر رہے ہیں ، جبکہ فقہاء نہ تو سنت سے دست بردار ہوئے ہیں اور نہ ایسی حدیث میں عیب جوئی ہی کے مرتکب ہوئے ہیں جس کی نسبت صحیح ہو اور جس کا مضمون بے عیب ہو، ان فقہاء نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا ہے کہ انہوں نے بعض روایات میں علتوں کا انکشاف کرنے کے بعد ان کو رد کر دیا یہ اقدام انہوں نے غور و فکر کر کے علمی طریقۂ کار کے مطابق کیا ہے اس طرح انہوں نے امت کی، صحیح بات اور درست راستے کی طرف راہنمائی کی ہے۔ اس طریقۂ کار میں ان فقہاء نے صحابہ و تابعین کو نمونہ عمل بنایا ہے، تم خود عائشہ رضی اللہ عنہا کے طرز عمل کو دیکھو کہ جب انہوں نے یہ حدیث سنی کہ ’’میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے‘‘ تو انہوں نے اس کا انکار کر دیا اور قسم کھا کر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے۔ اور اپنے اس انکار کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: کیا تمہارے سامنے یہ ارشاد الٰہی نہیں ہے: ﴿لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ﴾ ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا نفس دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘[1] ’’انہوں نے اس حدیث کو پوری جرأت اور خود اعتمادی کے ساتھ رد کر دیا اس کے باوجود عائشہ کی رد کردہ یہ حدیث صحیح احادیث کے مجموعوں میں شامل ہے اور ابن سعد نے تو اسے متعدد سندوں کے ساتھ طبقات کبری میں کئی مقامات پر نقل کر دیا ہے۔‘‘ [2] غزالی نے اس کے بعد ان تفصیلات کا ذکر کیا ہے جو خود احادیث میں بیان ہوئی ہیں ، چونکہ میرے جواب میں ان تفصیلات کا ذکر آرہا ہے اس لیے ان کو نقل کرنا تکرار محض ہو گی، البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے طرز عمل کی تحسین کرتے ہوئے انہوں نے جو کچھ فرمایا ہے وہ اگرچہ حب علی نہیں بغض معاویہ کے قبیل سے ہے، پھر بھی اس کو بیان کر دینا مفید ہے: ’’میرے خیال میں ام المؤمنین نے جو طریقۂ کار اختیار کیا ہے، صحیح حدیثوں کو کتاب کریم کی نصوص پر پیش کر کے ان کی صحت و سقم معلوم کرنے کی یہی بنیاد ہے، کیونکہ اس کتاب میں باطل سامنے سے درانداز ہو سکتا ہے اور نہ پیچھے سے‘‘ اسی وجہ سے ائمہ فقہ اسلامی وسیع اجتہاد کے مطابق احکام ثابت کرتے رہے ہیں ، ان کا اولین اعتماد تو کتاب اللہ پر ہوتا تھا، اور اگر مرویات کے ’’ڈھیر‘‘ میں ان کو کوئی ایسی چیز مل جاتی جو کتاب اللہ سے ہم آہنگ ہوتی تو اسے قبول کر لیتے،
Flag Counter