Maktaba Wahhabi

195 - 531
ظاہری مفہوم میں لینے کے بجائے ان کی تاویل کرتے ہیں اور اگر کوئی صحیح ترین حدیث ان کی نظر میں قرآن سے ٹکراتی ہے تو وہ اس کو رد کر دیتے ہیں جس کو معلوم کرنے کے لیے رازی کی ’’التفسیر الکبیر‘‘ پر ایک طائرانہ نظر ڈال لینا کافی ہے۔ شیخ غزالی ۱۹۶۵ اور ۱۹۶۶ میں ازہر میں راقم کے استاد تھے میں نے ان سے منہج بحث (طرز بحث و تحقیق) کا مضمون پڑھا ہے وہ نہایت وسیع المطالعہ اور جری عالم ہونے کے ساتھ بے حد خلیق تھے۔ مگر حدیث کا وسیع اور گہرا علم نہیں رکھتے تھے اس پر مستزاد یہ کہ اشعری العقیدہ، معتزلی الفکر اور حنفی المسلک تھے اس طرح حدیث کے بارے میں ان کے نقطۂ نظر سے تمسخر اور استہزا کی بو آتی ہے۔ امریکہ میں ’’معھد الفکر الاسلامی‘‘ کے نام سے جو انسٹی ٹیوٹ قائم ہے اس کے ایما پر شیخ غزالی نے ’’السنۃ النبویہ بین اھل الفقہ واھل الحدیث‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی جو پہلی بار ۱۹۸۹ء میں چھپ کر منظر عام پر آئی اس کتاب میں انہوں نے حدیث کی صحت و سقم کا جس طرح جائزہ لیا ہے وہ حق و باطل کا ملغوبہ ہے اور کسی سنجیدہ اور اصولی بحث کے بجائے ان کے ذہنی انتشار اور غیر مرتب افکار کا ترجمان ہے اس کتاب کا محوری موضوع یوں تو یہ ہے کہ حدیث کا مطالعہ فقہاء کی نگاہ سے کیا جانا چاہیے اور کسی حدیث پر صحت و سقم کا حکم لگانے کے لیے اس کی سند کے بجائے اس کے متن اور مضمون پر فقہاء کے نقطۂ نظر سے غور کرنا چاہیے، فقہاء سے ان کی مراد فقہائے احناف ہیں جن کے بارے میں علم حدیث سے بہرہ ور علمائے احناف کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ علم حدیث سے تہی دامن تھے جس کی مثالوں سے مسلک حنفی کی فقہی کتابیں بھری پڑی ہیں ، اس تناظر میں ان فقہاء کے نقطۂ نظر سے حدیث کے مطالعہ کا انجام معلوم ہے اور جس کا نمونہ شیخ غزالی کی یہ کتاب ہے۔ یہاں یہ تذکرہ فائدہ سے خالی نہیں کہ حدیث کے شرعی حجت ہونے کو مشکوک بنانے کی تحریک کا آغاز مصر کے شیخ محمد عبدہ متوفی ۱۹۰۵ اور ان کے شاگرد سید رشید رضا متوفی ۱۹۳۵ کی بعض تحریروں سے ہوا، ان بزرگوں کا شمار منکرین حدیث میں نہیں ہوتا، لیکن عقائد اور احکام سے متعلق بعض حدیثوں پر ان کے سطحی اعتراضات نے ان کے بعد آنے والے منکرین حدیث کو حدیث کو نشانہ بنانے کا حوصلہ دیا، چنانچہ مشہور مصری منکر حدیث محمود ابوریہ نے اپنی کتاب ’’الأضواء علی السنۃ المحمدیہ‘‘ میں اپنی ’’جہالتوں ‘‘ پر جا بجا رشید رضا کی عبارتوں سے استدلال کیا ہے، ابوریہ کی یہ کتاب ۱۹۴۷ء میں منظر عام پر آئی۔ اس وقت میرے پیش نظر شیخ غزالی کی کتاب پر تبصرہ نہیں ہے، بلکہ میں نے ان کے اور ان کی کتاب کے بارے میں یہ سرسری معلومات صحیح بخاری کی حدیث: میت کے گھر والوں کے رونے سے اس پر عذاب‘‘ کی صحت پر ان کے اعتراض کو نقل کرنے سے پہلے اس لیے پیش کر دی ہیں ، تاکہ قارئین اس انکار کے محرکات سے آگاہ رہیں ۔ شیخ غزالی کا انداز بیان بڑا جارحانہ ہے جو ان کی مشہور اعتدال پسندی اور حق گوئی سے میل نہیں کھاتا قارئین سے
Flag Counter