Maktaba Wahhabi

194 - 531
نہیں اٹھائے گا۔ اس حدیث کی توجبیہ یہ کی جاتی ہے کہ مرنے والے کو عذاب اس صورت میں دیا جائے گا جب وہ خود نوحہ و ماتم کا عادی رہا ہو اوراسی طرح اس نے اہل وعیال کی تربیت کی ہو حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ توجیہ بہت کمزور ہے اور اس قسم کی توجیہ ہر کمزور روایت کے لیے کی جاسکتی ہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تک جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت پہنچی تو انہوں نے فرمایا: ابن عمر کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، وہ جھوٹ نہیں بولتے، مگر انہیں بھول ہوگئی یا وہ سمجھنے میں غلطی کرگئے، اصل بات یہ تھی کہ ایک یہودی عورت کے مرنے پر اس کے گھر والے رو رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے تو آپ نے فرمایا: یہاں اس پر رو رہے ہیں اور وہ اپنی قبر میں عذاب بھگت رہی ہے۔ یہ فرمانے کے بعد ڈاکٹربرنی نے اس واقعہ سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ ہے ’’ٹیپ کا بند‘‘ فرماتے ہیں : ’’حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ محض سند کی مضبوطی کافی نہیں بعض اوقات نفس مضمون پر غور کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ہر راوی کے ثقہ اور عادل ہونے کے باوجود کبھی کبھار خبر کی نسبت الصادق المصدوق سے یقینی نہیں ہوتی، حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت میں کذب کا احتمال نہیں ، مگر غلط فہمی کا عنصر موجود ہے اور یہ غلط فہمی دنیا کے کسی بھی انسان کو ہو سکتی ہے، اس غلط فہمی کے باوجود دنیا میں بے شمار صحیح خبریں موجود رہیں گی اور کائنات کی سب سے بڑی خبر متواتر یعنی اللہ کی آخری کتاب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘ [1] دراصل ڈاکٹر برنی نے حدیث کے قبول و رد کے بارے میں جو اصول بیان کیے ہیں وہ نہ ان کے اپنے وضع کردہ ہیں اور نہ ان کے اندر اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اس طرح کے اصول وضع کریں ۔ بلکہ یہ ان کے مرشد مولانا اصلاحی صاحب کے افکار سے ماخوذ ہیں ، میں ان کے ان بلند بانگ دعادی پر مختلف عنوانات کے تحت تبصرہ کروں گا، مگر اس سے قبل اس زیر بحث حدیث کے بارے میں شیخ غزالی رحمہ اللہ کے نقطۂ نظر کو بھی مختصراً بیان کر دینا چاہتا ہوں ، تاکہ قارئین کے سامنے منکرین حدیث کا عمومی نقطۂ نظر آ جائے اور میری باتیں سمجھنے میں آسانی رہے۔ شیخ غزالی رحمہ اللہ کا شمار جامعہ ازہر کے ممتاز اساتذہ میں ہوتا تھا وہ صاحب طرز کاتب اور نہایت قادر الکلام خطیب تھے ازہر کے دوسرے اساتذہ کی طرح وہ بھی عقائد میں اشعری تھے اور اپنی آزاد خیالی اور وسعت مطالعہ کے باوجود اشعری طرز فکر سے اپنے آپ کو آزاد کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے اور یہ معلوم ہے کہ اشعری اور ما تریدی علم کلام معتزلہ ہی کے اصولوں پر مبنی ہے، اسی وجہ سے اشعری اور ماتریدی متکلمین کی سوچ پر فلسفہ اعتزال کی گہری چھاپ ہے خاص طور پر انکار حدیث اور ذات باری تعالیٰ اور صفات الٰہی اور معجزات وغیرہ کے مسئلہ میں وہ قرآنی آیات اور صحیح احادیث کو ان کے
Flag Counter