Maktaba Wahhabi

212 - 531
پاک نہیں ہے۔ ام المؤمنین نے حدیث ’’گھر والوں کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے‘‘ کو ارشاد الٰہی: ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘ کے خلاف سمجھ کر رد کر دیا تھا جو ان کی رائے اور اجتہاد پر مبنی تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی بھی شخص اپنی رائے اور اجتہاد میں معصوم عن الخطاء نہیں ہے۔ اسی طرح ام المؤمنین نے اہل قلیب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب اور آپ کے اس ارشاد: یہ اس وقت وہ باتیں سن رہے ہیں جو میں ان سے کہہ رہا ہوں ‘‘ کو سورہ نمل اور سورۂ فاطر کی مذکورہ آیتوں کے خلاف سمجھ لیا اور حدیث کا انکار کر دیا۔ یہ بھی ان کے خیال اور اجتہاد پر مبنی تھا، ورنہ حقیقت میں حدیث مذکورہ آیتوں کے خلاف نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نمل میں یہ فرمایا: ﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾ ’’حقیقت یہ ہے کہ تم مردوں کو نہیں سنا سکتے، یا سنوا نہیں سکتے۔‘‘ أسمع یُسمع اِسماعا کے معنی ہیں کسی کو کوئی بات سنانا یا وہ بات اس کے کان میں ڈالنا، یا اس کو اس تک پہنچا دینا، یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں یہ نہیں فرمایا ہے کہ میں نے ان مردہ سرداران قریش کو اپنی باتیں سنا دی ہیں اور ان کے اندر قوت سماعت پیدا کرکے اپنی باتین ان کے گوش گزار کر دی ہیں ، بلکہ آپ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے استفسار پر فرمایا: ((ما أنتم بأسمع لما أقول منھم)) ’’میں ان سے جو کہہ رہا ہوں تم اس کو ان سے بہتر سننے والے نہیں ہو یا تم اس کو ان سے زیادہ بہتر طریقے سے نہیں سن رہے ہو۔‘‘(۴۹۷۲) مطلب یہ ہے کہ وہ میری باتیں ایک زندہ انسان کی طرح بالکل طبعی طور پر سن رہے ہیں ۔ یا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((انھم الان یسمعون ما أقولہ)) ’’درحقیقت یہ لوگ اس وقت میری باتیں جو میں ان سے کہہ رہا ہوں سن رہے ہیں ۔‘‘ (۳۹۸۰۔ ۳۹۸۱) معلوم رہے کہ ابو طلحہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کی روایتوں میں تفصیل و اختصار کے سوا کوئی اختلاف نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کے استفسار کے جواب میں یہ فرمایا ہو گا کہ: یہ میری باتیں اس وقت سن رہے ہیں ، پھر اس کی تاکید میں فرمایا ہو گا: تم لوگ میری باتیں ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو‘‘ ابن عمر نے پہلے فقرے کا ذکر کیا اور ابو طلحہ نے دوسرے فقرے کا، خود قرآن میں ایک ہی واقعہ کے بیان میں اس تفصیل و اختصار کی مثالیں موجود ہیں ۔ مذکورہ بالا وضاحتوں کو مختصر لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ سرداران قریش کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے چند باتیں فرمائیں یہ آپ کا فعل تھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ باتیں ان تک پہنچا دیں اور زندوں کی طرح انہیں سنا دیں یہ اللہ کا فعل تھا اور ان دونوں فعلوں میں قطعاً کوئی تضاد یا ٹکراؤ نہیں ہے۔ یہ تو قرآن اور حدیث کی بات تھی، قرآن میں تو اس سے زیادہ مشکل مقام آیا ہے اور ایک ہی آیت میں جس فعل کی نفی ہے اس کا اثبات بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter