Maktaba Wahhabi

213 - 531
﴿فَلَمْ تَقْتُلُوْہُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمْ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ (الانفال: ۱۷) ’’پس تم لوگوں نے انہیں قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور تم نے نہیں پھینکا جب تم نے پھینکا، بلکہ اللہ نے پھینکا۔‘‘ منکرین حدیث جو قرآن اور حدیث میں تضادات تلاش کرتے پھرتے ہیں اور دونوں میں معمولی سا لفظی یا ظاہری اختلاف پا کر طوفان بدتمیزی برپا کر دیتے ہیں اور صرف حدیث کے انکار پر ہی اکتفا نہیں کرتے، بلکہ پوری جماعت محدثین کو نشانہ بنا لیتے ہیں اور ان پر غفلت، عدم تفقہ، سطحیت اور روایت پرستی کا الزام لگانے لگتے ہیں اور یہ دہائی دینے لگتے ہیں کہ قرآن اور اس کی تعلیمات خطرے میں ہیں ۔ ان منکرین سے عرض ہے کہ اس ارشاد الٰہی کے بارے میں ان کی عقل کیا کہتی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے نہایت صریح اور دو ٹوک لفظوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’رمی‘‘۔ پھینکنے۔ کی نفی بھی کی ہے اور اثبات بھی، کیا عقل و منطق کی رو سے ایک ہی وقت میں ایک فعل وقوع پذیر ہو سکتاہے اور نہیں بھی ہو سکتا؟ اگر ہو سکتا ہے تو کیا اس سے بڑا کوئی محال دنیا میں موجود ہے؟ اور اگر نہیں ہو سکتا تو پھر قرآن میں کیسے ہے، جس میں باطل کا کوئی گزر نہیں ۔ کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس حقیقت کا اعلان نہیں کر رہا ہے کہ ایک ہوتا ہے ’’فعل‘‘ اور ایک ہوتا ہے نتیجہ فعل یا اثر فعل۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینا مٹھی بھر رتیلی مٹی کفار کی جانب پھینکی، کیونکہ قرآن اس کا اثبات کرتا ہے، لیکن یہ مٹی کفار کے آنکھوں تک پہنچانے کا کام آپ نے نہیں اللہ نے کیا اس لیے اللہ نے آپ سے اس کی نفی کی ہے۔ ٹھیک اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینا اہل قلیب کو مخاطب بنا کر ان سے وہ سب کچھ فرمایا جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے اور جس کی روایت اجلۂ صحابہ نے آپ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ کر اور آپ کی زبان مبارک سے سن کر کی ہے، اور آپ نے ان سے جو کچھ فرمایا اللہ نے انہیں اپنی صفت اور قدرت ’’اسماع‘‘ سے سنا دیا۔ ام المؤمنین نے جو کچھ فرمایا، وہ ان کا اجتہاد تھا، اور جن صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حدیث روایت کی وہ ان کی نقل اور ان کا بیان تھا، اجتہاد کو عصمت حاصل نہیں ہے، لیکن کوئی بھی صحابی نبی کریم رضی اللہ عنہ سے روایت حدیث، نقل حدیث اور بیان حدیث میں کذب بیانی اور غلط بیانی سے معصوم اور پاک تھا۔عقلاً نہیں ، قصداً و ارادۃً۔ اہل قلیب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب چند نہایت سادہ سے الفاظ پر مشتمل ہے جس کو سن کر یا د کر لینا ایک معمولی حافظہ رکھنے والے کے لیے بھی بہت آسان ہے، پھر جن صحابہ نے اس کو نقل کیا ہے وہ فہم و حفظ میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے ان کے لیے کس طرح مشکل اور دشوار ہو سکتا تھا۔ مزید یہ کہ وہ واقعہ کے عینی شاہد تھے، کارزار میں حصہ لے چکے تھے، سرداران قریش سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کا منظر ان کی نگاہوں میں رچ بس گیا تھا، ایسی صورت میں سماع کے
Flag Counter