Maktaba Wahhabi

221 - 531
عصمت انبیاء، لقائے الٰہی کی چاہت اور فرشتوں کی روحانی طاقت اور ان کی مادی عدم اثر پذیری سے متصادم ہونے والی بھی کوئی بات نہیں ہے، اس کے باوجود حدیث کو ریب و شک سے دیکھنے والوں اور اس میں دینی و عقلی عیوب تلاش کرنے والوں نے اس کے متن اور مضمون کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا کر دیا ہے، جن کی نمائندگی پہلے تو محمود ابوریہ نے اپنی کتاب: ’’أضواء علی السنۃ المحمدیہ‘‘ میں اور ان کے بعد شیخ غزالی نے ’’السنۃ بین اھل الفقہ واھل الحدیث‘‘ میں کی ہے۔ ابوریہ نے تو اس حدیث کو ان حدیثوں میں شمار کرنے پر اکتفا کیا ہے جن سے بقول اس کے اسرائیلیات کی بو آتی ہے اور جن کی روایت کا الزام اس نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر لگایا ہے۔ رہے شیخ غزالی تو انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں صحیحین کی بعض حدیثوں پر سنجیدہ علمی تنقید کرنے کے بجائے پورے ذخیرۂ حدیث کو نشانہ بنا لیا ہے اور جن حدیثوں کی صحت کا انکار کیا ہے ان کی بابت نہایت رکیک اور سوقیانہ لب و لہجہ استعمال کیا ہے اور حدیث دشمنی نے ان سے وہ سنجیدگی اور متانت بھی چھین لی ہے جو کسی زمانے میں ان کی شناخت تھی اور اس حدیث دشمنی نے ان سے بصارت و بصیرت دونوں سلب کرلی ہے یہاں تک کہ ان کو وہ حقائق بھی نظر نہیں آتے جو قرآن میں بکھرے ہوئے ہیں اور جن سے ان حدیثوں کے مضامین پوری طرح ہم آہنگ ہیں جن کی صحت کا انہوں نے انکار کیا ہے۔ اس زیر بحث حدیث پر غزالی نے اپنے اعتراض کا آغاز جس انداز میں کیا ہے وہ حدیث سے ان کی بدظنی کا ترجمان ہے، تحریر فرماتے ہں ۔ جب میں الجزائر میں تھا تو ایک طالب علم نے مجھ سے پوچھا: کیا یہ صحیح ہے کہ موسی علیہ السلام نے موت کے فرشتے کی آنکھ اس وقت پھوڑ دی تھی جب وہ ان کی روح قبض کرنے آیا تھا، جبکہ ان کی مدت عمر پوری ہو چکی تھی؟ میں نے مذکورہ طالب علم کو تنگ دلی سے جواب دیتے ہوئے کہا: یہ حدیث تمہیں کیا فائدہ پہنچائے گی؛ اس کا تعلق نہ تو عقیدے سے ہے اور نہ اس پر کوئی عمل ہی موقوف ہے، آج امت اسلامیہ آزمائشوں اور سازشوں کی چکی میں پس رہی ہے اور اس کے دشمن اس کا گلا گھونٹ دینے پر تلے ہوئے ہیں ، ایسی صورت میں وہ مصروفیت اختیار کرو جو اہم بھی ہے اور مفید بھی‘‘ یہ سب سن کر طالب علم نے کہا: میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ حدیث صحیح ہے یا نہیں ؟ میں نے اس کو آزردگی سے جواب دیتے ہوئے کہا: یہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور کچھ لوگوں کے نزدیک اس کی صحت محل بحث و نظر ہے۔‘‘ اس کے بعد میں نے بذات خود اس حدیث میں غور و تأمل کیا، جس کا ماحصل یہ ہے کہ حدیث کی سند صحیح ہے لیکن اس کا متن باعث شک ہے؛ کیونکہ اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ موسی علیہ السلام موت کو ناپسند کرتے تھے اور اپنی مہلت عمر پوری ہو جانے پر بھی اللہ کی ملاقات کو پسند نہیں کرتے تھے، یہ ایسا مفہوم ہے جو اللہ کے صالح بندوں کی نسبت سے مردود ہے۔
Flag Counter