Maktaba Wahhabi

232 - 531
باتوں کی وضاحت کریں ، بعض نہ معلوم باتوں سے لوگوں کو آگاہ کریں اور ان لوگوں کو ان کے انجام بد سے خبردار کریں ، جو خلیفہ کے انتخاب میں عہدو پیمان اور صلاح و مشورہ کے بغیر امور خلافت پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں ۔ لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے امیرالمومنین! حج کے اس اجتماع میں لوگوں سے خطاب نہ فرمائیے، کیونکہ اس موقع پر کمینی خصلتوں کے مالک اور اوباش اور شرپسند لوگ بھی جمع ہوجاتے ہیں ، اگر آپ یہاں خطاب فرمائیں گے تو اسی طرح کے لوگوں کا آپ کے پاس غلبہ ہوگا اور یہ لوگ آپ کی باتیں سوچے سمجھے بغیر ہر جگہ پھیلا دیں گے اور ان کو غلط معنی پہنائیں گے، لہٰذا تھوڑا انتظار کر لیجیے اور جب مدینہ واپس پہنچ جائیں جودارالہجرت ہے اور وہاں اہل فقہ اور باحیثیت، معززین اور اعلیٰ خصلتوں کے مالک لوگوں سے ملیے تو وہاں جو فرمانا چاہتے ہیں فرمائیے، وہاں اہل علم آپ کا خطاب سمجھیں گے اور اس کو وہ مقام دیں گے جس کا وہ مستحق ہے۔[1] اس طرح حج کے بعد مدینہ واپس پہنچنے پر حضرت عمر نے مسجد نبوی کے منبر سے لوگوں سے جو جامع ومانع خطاب فرمایا اس میں جہاں پوری تفصیل سے خلیفۂ اول حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے واقعات بیاں کیے جس کے نہ صرف یہ کہ آپ شاہد تھے، بلکہ اس بیعت کے روح رواں بھی آپ ہی تھے اور آپ ہی نے پہل کر کے اس فتنہ کا گلہ گھونٹ دیا تھاا جس کے بھڑکانے کے لیے شیطان نے سارا سامان تیار کرلیا تھا، وہیں اس خطاب میں خلیفہ دوم نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ کی آیات کے ضمن میں رجم کی آیت بھی نازل فرمائی تھی جسے ہم نے پڑھا، سمجھا اور سمجھ کر اس کو اپنے دلوں میں محفوظ کیا اور اس کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔‘‘ حضرت عمر نے اپنی اس تقریر میں یہ بھی فرمایا کہ: ہم کتاب اللہ ہی کی آیت کے طور پر یہ بھی پڑھتے رہے تھے: ((لا ترغبو اعن ابائکم، فانہ کفر بکم ان ترغبوا عن آبائکم)) ’’اپنے باپوں کے انتساب سے اعراض مت کرو، کیونکہ تمہار اپنے باپوں کے انتساب سے اعراض کرنا تمہارے حق میں کفر کا درجہ رکھتا ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آیت رجم اور آیت نسب کے نزول اور پھر ان کے نسخ کا اعلان کسی نجی مجلس میں نہیں ، بلکہ منبر رسول پر چڑھ کر اجلۂ صحابہ کے سامنے کیا اور صحابہ کرام میں سے کسی ایک فرد نے بھی ان سے اختلاف نہیں کیا، اور نہ بعد میں کسی صحابی نے اس مسئلہ میں اس روایت سے اختلا ف کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ آیت رجم اور آیت نسب کے کلام الٰہی ہونے پر صحابۂ کرام کا اتفاق تھا، اجماع کے بجائے’’اتفاق ‘‘ کی تعبیر میں نے قصداً استعمال کی ہے، اس لیے کہ کسی مسئلہ پر’’اجماع ‘‘ کے لیے جو علم درکار ہے اس سے بہرہ ور کوئی نہیں ہے، یاد رہے کہ آیت رجم یا آیت نسب میں سے کوئی بھی آیت قلم بند نہیں کی گئی تھی، اسی وجہ سے ان کی تلاوت تو منسوخ ہوئی، مگر حکم باقی رہا، رہیں وہ آیتیں جو مصحف میں ثبت ہیں اور ان کا حکم منسوخ ہے تو ان کی تلاوت باقی ہے جس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں:
Flag Counter