Maktaba Wahhabi

244 - 531
تو یہ روایت کسی بھی الفاظ میں صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس کی روایت ابراہیم نخعی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کی ہے اور عمر سے نخعی کی ملاقات ثابت نہیں ہے اس طرح یہ روایت منقطع اور ناقابل اعتبار ہے۔[1] دراصل حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کا انکار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد کی بنیاد پر نہیں کیا تھا، بلکہ ان کے اس انکار کا تمام تر مداراللہ تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد کے ان کے فہم پر تھا، یعنی انہوں نے اس حکم کو رجعی اور بائن دونوں طرح کی مطلقہ عورتوں کے لیے عام سمجھا تھا، جبکہ اوپر پوری تفصیل سے یہ واضح کیا چکا ہے کہ سورۂ طلاق کی کسی بھی آیت میں ’’مطلقہ ثلاثۃ ‘‘ کی رہائش اور نفقہ سمیت کوئی بھی حکم بیان ہی نہیں کیا گیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے’’سنۃ نبینا ‘‘ کا جو ٹکڑا ہے اس کو امام دار قطنی نے غیر محفوظ یعنی’’شاذ ‘‘ بتایا ہے اور صرف((لاندع یا لا نترک کتاب اللّٰه یا کتاب ربنا)) کو محفوظ قرار دیا ہے۔[2] اور اگر’’سنۃ نبینا ‘‘ کے فقرہ کو درست بھی مان لیاجائے تو اس سے ان کی مراد وہ عرف یا طریقہ ہے جس پر ان کے زمانے کے لوگوں کا عمل تھا، سنت سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث مراد نہیں لی تھی، کیونکہ اگر ان کے علم میں کوئی حدیث ہوتی تو وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو ترک کرنے کا سبب یہ نہ بتاتے کہ’’پتہ نہیں اس نے اسے یاد رکھا یا بھول گئی ‘‘ کیونکہ اس عبارت کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ فاطمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اپنی روایت یاد رکھی ہے تو وہ اس پر عمل کرتے، یہ قول اس بات پر دلیل ہے کہ ان کے علم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی کوئی حدیث نہیں تھی جس میں ’’مطلقہ بائنہ ‘‘ کو رہائش اور خرچ دینے کا کوئی حکم بیان کیا گیا ہو، ورنہ وہ فاطمہ کی روایت کو رد کرنے کا سبب ان کے اسے یاد رکھنے یا بھول جانے کے عدم یقین کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنی ہوئی حدیث کو قرار دیتے۔ چنانچہ جب امام احمد سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ قول ذکر کیاجاتا تو وہ مسکراتے ہوئے فرماتے کہ: اللہ کی کتاب میں کہاں یہ آیا ہے کہ جس عورت کو تین طلاقیں دی جاچکی ہوں اس کو سکونت اور نفقہ کا حق حاصل ہے اور جب ان سے کی یہ روایت بیان کی جاتی: ((سمعت رسول اللّٰه علیہ وسلم یقول: لھا السکنی والنفقۃ)) تو فرماتے: عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی نسبت صحیح نہیں ہے۔[3] امام ابن القیم نے امام احمد کا قول نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ اس باطل کلام سے امیر المومنین کو اپنی پناہ میں رکھے جس کی نسبت ان سے قطعاً صحیح نہیں ہے اور امام
Flag Counter